ایم کیو ایم کارکن کی موت پولیس تشدد سے نہیں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، سعید غنی

اپ ڈیٹ 27 جنوری 2022
سعید غنی کا کہنا تھا کہ ریڈ زون میں داخل ہونا واحد مسئلہ ہوتا تو ہم جماعت اسلامی کو بھی روکتے— فوٹو: ڈان نیوز
سعید غنی کا کہنا تھا کہ ریڈ زون میں داخل ہونا واحد مسئلہ ہوتا تو ہم جماعت اسلامی کو بھی روکتے— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے احتجاج کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ گزشتہ روز کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکن کی موت پولیس کے تشدد سے نہیں بلکہ ’دل کا دورہ‘ پڑنے سے ہوئی۔

گزشتہ روز وزیر اعلیٰ ہاوس کے باہر ایم کیو ایم کی جانب سے حال ہی میں منظور کیے گئے بلدیاتی قانون کے خلاف دھرنا دیا گیا، جہاں پولیس نے مظاہرین کومنشتر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا تھا جس کے باعث متعدد بچے اور خواتین زخمی ہوئے تھے۔

واقعے میں زخمی ہونے والے ایم کیو ایم کے رکن صوبائی صداقت حسین سمیت 3 افراد کو جناح پوسٹ گریجویٹ ہسپتال (جے پی ایم سی ) منتقل کیا گیا تھا، ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ واقعے میں ان کا اسلم نامی کارکن دوران علاج دم توڑ گیا ہے۔

تاہم وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے پریس کانفرنس کے دوران یہ دعویٰ مسترد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں موصول ہونے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلم کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا ہے، انہیں پہلے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز پھر این آئی سی وی ڈی منتقل کیا گیا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید تحقیقات سے ہمیں معلوم ہوا کہ تشدد کے باعث زخمی ہونے والے اسلم نامی کسی بھی شخص کو کسی بڑے سرکاری ہسپتال منتقل نہیں کیا گیا اور جناح ہسپتال میں اس طرح سے کوئی جاں بحق نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ایم کیو ایم پاکستان کی ریلی پر پولیس کی شیلنگ، متعدد کارکن گرفتار

انہوں نےکہا کہ اب تک کی معلومات کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے جس کے مطابق کسی شخص کی جان گئی ہو، میں اسلم صاحب کے خاندان سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ ان کا پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ حکومت پر لگائے گئے الزام کی تصدیق ہوسکے۔

وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کل کے احتجاج کے باعث پی ایس ایل کی ٹیمیز نیشنل اسٹیڈیم نہیں جاسکیں، ایم کیو ایم کا احتجاج پی ایس ایل کی وجہ سے روکا گیا تھا۔

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے احتجاج میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ پی ایس ایل ٹیموں کی پریکٹس منسوخ کرنی پڑی، یہ واقعہ نہیں پیش آنا چاہیے تھا، ہمیں سیاسی طور پر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، پیپلز پارٹی پر تبصرے کیے جارہے ہیں کہ ہم نے کوئی بہت بڑا ظلم کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو اس کے نقصانات بھی ہوسکتے تھے، اس وقت ملک کی سیکیورٹی کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں، پچھلے دنوں ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں، شیخ رشید نے خود کہا کہ ہمیں مختلف شہروں میں سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات ہیں ان شہروں میں انہوں نے کراچی کا بھی ذکر کیا تھا۔

خیال رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر فیصل سبزواری نے گزشتہ روز ٹوئٹ کیا تھا کہ پولیس کے لاٹھی چارج اور تشدد کے باعث اسلم نامی کارکن جاں بحق ہوگئے۔

مزید پڑھیں: ٹنڈوالٰہیار: مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس کا خواتین پر لاٹھی چارج

جس کے جواب میں ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کا ٹوئٹ کیا تھا کہ جی پی ایم سی میں سے کسی ہلاکت کی خبر موصول نہیں ہوئی۔

ردعمل میں فیصل سبزواری نے جوابی ٹوئٹ میں تسلیم کیا کہ زیر بحث ہسپتال این آئی سی وی ڈی تھا۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ ان حالات میں اگر وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے 12، 15 سو لوگ بیٹھے رہیں اور اس دوران کوئی واقعہ پیش آجائے تو اس کا نقصان پاکستان کو اور ملک میں طویل عرصے بعد بحال ہونے والی کرکٹ کو پہنچتا۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ انتظامیہ نے بہت سوچتے سمجھتے ہوئے لوگوں کو وہاں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور کوشش کی تھی کہ اس میں کوئی نقصان نہ ہو۔

وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا کہ جب لوگوں کو وہاں سے ہٹایا گیا اور جھڑپ ہوئی تو ایم کیو ایم کا کوئی لیڈر وہاں موجود نہیں تھا، صرف ایک ایم پی اے صداقت حسین وہاں موجود تھے، ویڈیو میں دیکھا گیا کہ وہ ایم پی اے پولیس والوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے۔

سعید غنی نے کہا کہ ایم پی اے نے پولیس پر ڈنڈے برسائے اور پولیس ان کی شناخت نہ کرسکی اس لیے پولیس نے جوابی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مارا، کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک ایم پی اے ایسا کرے گا جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔

ایم کیو ایم کے احتجاج میں ہنگامہ آرائی کے دوران سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی خواتین کو پولیس وین میں بٹھانے سے متعلق ویڈیو پر سعید غنی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو دیکھی گئی ہیں لیکن اس میں خواتین پولیس اہلکار ہی خواتین کارکنان کو موبائل میں بٹھا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کا احترام ہم سب کے لیے لازم ہے، لیکن یہ ذمہ داری ایم کیو ایم کے رہنماؤں پر ہے کہ انہوں نے اس موقع پر جب پی ایس ایل کی ٹیم یہاں ٹھہری ہوئی ہیں، اس قسم کا احتجاج کیوں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: نئے بلدیاتی قانون کیخلاف ایم کیو ایم کا دھرنا، پولیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج

ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس آپ کو کہہ رہی تھی کہ اس علاقے میں نہ جائیں جہاں پی ایس ایل کی ٹیمیں ٹھہری ہے اگر آپ جائیں گے تو ہمیں کوئی نہ کوئی ایکشن لینا ہوگا، تو آپ اس علاقے میں کیوں گئے اور اگر آپ نے وہاں جانا بھی تھا تو خواتین کو ہٹادیتے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا ہمیشہ سے یہ طریقہ کار رہا ہے کہ جب کوئی ایسی صورتحال بننے لگتی ہےتو وہ خواتین اور بچوں کو آگے کر دیتے ہیں اور پھر ان کی شیلڈ بنا کر پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ اس دوران پولیس نے 8 افراد پولیس کو حراست میں لیا جنہیں وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر رہا کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے جو باتیں کی گئی وہ سندھ میں لسانیت کو فروغ دینے کے لیے کی گئی، آپ کو قانون پر اعتراض ہے آپ اعتراض اٹھائیں، آپ کو ٹنڈو الہیار میں اپنے کارکن کی ہلاکت کی تحقیقات پر اعتراض ہے ہمیں بتائیں جیسے آپ کہیں گے ہم تحقیقات کروائیں گے۔

ان کہنا تھا کہ بلدیاتی قانون کے حوالے سے جماعت اسلامی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات جاری ہیں اس قانون کو بنیاد بنا کر شہر کے حالات خراب کرنے سے اردو بولنے والوں کی خدمت نہیں ہوگی، احتجاج آپ کا حق ہے لیکن پُر امن احتجاج کریں۔

انہوں نے کہا کہ ریڈ زون میں داخل ہونا واحد مسئلہ ہوتا تو ہم جماعت اسلامی کو بھی روکتے، انہوں نے کئی بار مرکزی شاہراہیں بند کیں ہم نے انہیں روکا، ایم کیو ایم نے شاہراہیں بند کیں ہم نے انہیں نہیں روکا، احتجاج سے روکنے کی واحد وجہ پی ایس ایل تھا جو ہماری مجبوری بنا۔

سعید غنی کے پریس کانفرنس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انہوں نے سندھ پولیس کی جانب سے ایم کیو ایم کے ۔’پرامن احتجاج‘ کے خلاف کیے جانے والے تشدد کا نوٹس لیا ہے اور اس معاملے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’رپورٹ موصول ہونے کے بعد ذمہ داروں کے خلاف ضروری کارروائی کریں گے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں