پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں عددی برتری نہ ہونے کے باوجود قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ووٹ سے منظور کرلیا، جس پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک نے قائد حزب اختلاف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ 'کمال ہے کہ کیا ہے؟ اسٹیٹ بینک کا بِل پیش ہوا، قائد حزب اختلاف، یوسف رضا گیلانی غائب'۔

یہ بھی پڑھیں: بل کی منظوری میں پیپلز پارٹی نے بالواسطہ حکومت کا ساتھ دیا، فواد چوہدری

انہوں نے کہا کہ 'ایک ووٹ، یعنی گیلانی صاحب کا ووٹ کم ہونے سے پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا غلام بنانے کا بل منظور ہوا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان کو قائد اختلاف بنانے والے اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے سینیٹرز نے بل کی والہانا حمایت کی'۔

خیال رہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کو حکومت کے 42 ارکان کے مقابلے میں 57 ارکان کے ساتھ واضح برتری حاصل ہے لیکن ایک اہم قانون سازی میں اپوزیشن اپنی برتری ایک ووٹ کے فرق سے کھو گئی۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ہیں اور انہیں حزب اختلاف بنانے کے لیے ووٹ دینے والے 6 اراکین دلاور خان گروپ بھی اپوزیشن میں شمار ہوتا ہے۔

جہاں سینیٹ میں اسٹیٹ بینک سے متعلق بل کی منظوری کے موقع پر قائد حزب اختلاف موجود نہیں تھے وہی ان کو ووٹ دینے والا دلاور خان گروپ بھی حکومت کے ساتھ کھڑا ہوا۔

مزید پڑھیں: ایک ووٹ کی اکثریت سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور

اپوزیشن کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر نزہت صادق ملک سے باہر کینیڈا میں ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شرکت نہ کرسکی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ہی مشاہد حسین سید کورونا سے متاثر ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔

سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار بھی بیرون ملک ہیں اور تاحال حلف بھی نہیں اٹھایا جبکہ حال ہی میں الیکشن کمیشن نے ان کا نوٹفیکیشن بھی بحال کردیا ہے۔

دوسری جانب اے این پی کے سینیٹر عمر فاروق کاسی بھی ووٹنگ سے قبل ہی ایوان سے چلے گئے اور انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

سینیٹ میں آج جب وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پیش کیا تو حکومت کو 43 ووٹ ملے جبکہ اپوزیشن 42 ووٹ حاصل کرپائی اور یوں ایک ووٹ کے فرق سے بل منظور ہوگیا۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں منظور کیے گئے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کے بعد مرکزی بینک ایک آزاد ادارہ بن جائے گا اور پیپلز پارٹی کا مشکور ہوں کہ انہوں نے بل منظور کروانے میں بالواسطہ ساتھ دیا۔

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021 مرکزی بینک کو مکمل خودمختار کرنے کے ساتھ حکومت کے مرکزی بینک سے قرضے کے حصول پر مکمل پابندی عائد کردے گا، تاہم حکومت مارکیٹ ریٹ پر کمرشل بینکوں سے قرض لے سکے گی، جس سے کاروباری اشرافیہ کی ملکیت کے نجی بینکوں کو فائدہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کو آئی ایم ایف اجلاس سے قبل منی بجٹ منظور کرانے کی کوئی جلدی نہیں

تمام بتائی گئیں 54 ترامیم جس میں 10 نئی شقیں بھی شامل ہیں، ایس بی پی ایکٹ 1956 میں متعارف کرائی گئی ہیں، ایس بی پی بل 2021، 3 مارچ 2021 کو کابینہ نے منظور کیا تھا جبکہ اس مہینے کے شروع میں وزیراعظم سیکریٹریٹ کے لا ڈویژن کی سفارشات پر اس پر نظر ثانی کی گئی تھی۔

مجوزہ ترامیم میں ڈومیسٹک پرائس اسٹیبلیٹی کو ایس بی پی کے بنیادی مقصد کے طور پر شامل ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے مرکزی بینک حکومت کی جانب سے طے کردہ میڈیم ٹرم انفلیشن ٹارگٹ کے مطابق کام کرے گا۔

اگرچہ حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے کی حمایت کرنے کا بنیادی مقصد ہوگا، خیال کیا جاتا ہے کہ مرکزی بینک اقتصادی ترقی کے لیے حکومت کی پالیسیوں کو جاری رکھے گا جب تک کہ اس کی حمایت، قیمت اور مالی استحکام کے اس کے بنیادی مقصد کو کمزور نہ کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں