پنجاب پولیس فورس میں جنسی امتیاز اور صنفی عدم توازن

31 جنوری 2022
یہ صنفی عدم توازن کی صورتحال ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2021 سے مزید واضح ہوجاتی ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
یہ صنفی عدم توازن کی صورتحال ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2021 سے مزید واضح ہوجاتی ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

محکمہ پولیس پنجاب کی ویب سائٹ کے مطابق ایس پی، اے اسی پی، ڈی ایس پی، ایس آئی، ٹریفک وارڈن، اے ایس آئی، ہیڈ کانسٹیبل، کانسٹیبل سمیت مختلف عہدوں پر تقریباً 4 ہزار خواتین پولیس اہلکار موجود ہیں، تاہم ایک سینئر افسر کے مطابق ایک لاکھ 75 ہزار کی پنجاب پولیس فورس میں خواتین ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ صنفی عدم توازن کی صورتحال ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2021 سے مزید واضح ہوجاتی ہے، رپورٹ میں پاکستان کا درجہ 156 ممالک میں سے 153 تھا۔

ایک اور بات جس سے یہ صورتحال مزید واضح ہوجاتی ہے کہ 1994 میں ملک کے پہلے خواتین پولیس اسٹیشن کے قیام کے بعد سے تقریبا 3 دہائیوں کے بعد بھی صرف آدھے درجن خواتین پولیس اسٹیشن بنے ہیں۔

فیصل آباد کے واحد خواتین پولیس اسٹیشن کی اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) مدیحہ ارشاد کا ڈان سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سماجی اور ثقافی رکاوٹیں خواتین کو پولیس فورس میں شمولیت سے روکتی تھیں خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں مگر اب ایسا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’7 سال قبل جب میں نے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی تو اس وقت صرف پڑھانے کا شعبہ ایسا تھا جس کو اپنانے کے لیے لڑکیوں کو کہا جاتا تھا، لیکن اب لوگوں کا سوچنے کا انداز بدل رہا ہے، میں خود ایک دیہاتی علاقے سمندری سے تعلق رکھتی ہوں اور وہاں سے پولیس فورس میں شامل ہونے والی پہلی خاتون تھی لیکن میرے بعد کئی لڑکیاں پولیس فورس میں شامل ہوئی ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: صنفی مساوات کے انڈیکس میں پاکستان کی تنزلی، بدترین ممالک کی فہرست میں شامل

مدیحہ ارشاد یہ بھی محسوس کرتی ہیں کہ خواتین پولیس اسٹیشن کی تعداد کم ہونے کی وجہ وسائل کی کمی بھی ہے لیکن حکومت، تحصیل اور ضلعی سطح پر ان کو بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔

ایس ایچ او سمجھتی ہیں کہ خواتین عام پولیس تھانوں میں رپورٹ درج کرانے کے لیے جانے سے کتراتی ہیں کیونکہ وہاں رپورٹنگ افسر مرد ہوتے ہیں، مدیحہ ارشاد جن کو پی پی ایس سی امتحان پاس کرنے کے بعد 2014 میں فورس میں شامل کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے ان کی بھی پولیس فورس میں شمولیت کی حوصلہ شکنی کی تھی مگر وہ اپنے ارادے میں پکی تھیں۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) عمارہ اطہر، جو اس وقت پنجاب کانسٹیبلری بٹالین کمانڈر ہیں، نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ تھانوں میں خواتین اہلکاروں کی کم تعداد کے باعث خواتین رپورٹ درج کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ہر جگہ خواتین اہلکاروں کو تعینات کرنا حل نہیں ہے بلکہ مرد اہلکاروں میں جنسی حساسیت سے متعلق شعور اجاگر کرنا حل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ویمن پولیس اسٹیشن ماڈل کامیاب نہیں ہوا، یہ قابل عمل نہیں ہے، کیونکہ آپ پورے شہر کی خواتین کو ایک ہی تھانے جانے پر مجبور نہیں کر سکتے، ہر پولیس تھانے کو تمام لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے، اس کے لیے انہیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ شکایت کنندہ کی جنس کی بنیاد پر ان سے برتاؤ نہیں کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک کے 81 اضلاع میں صنفی تفاوت 10 فیصد سے زائد ریکارڈ

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں قانون سازی سمیت کافی پیش رفت ہونے کے باوجود انصاف تک رسائی اتنی آسان نہیں ہوئی، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود بڑے صنفی خلا اور حکام کے درمیان صنفی حساسیت نہ ہونے کے باعث کئی مسائل ہیں۔

پولیس اور عدلیہ سمیت زیادہ تر اداروں میں مرد بالادستی اور ان کے اندر چھائی پدرانہ ذہنیت اپنے مسائل بتانے میں خواتین کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں خاص طور پر دیہاتی علاقوں میں۔

پولیس کی جانب سے شکایت کنندہ خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے کیے گئے اقدامات، جیسے صوبے کے تمام 36 اضلاع میں ہیلپ ڈیسک کا قیام، خواتین پولیس اہلکاروں کے ذریعے چلنے والا انسداد ہراسانی اور تشدد سیل بھی خاطر خواہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئے اور فورس میں خواتین کی نمائندگی بھی غیر معمولی طور پر کم رہی۔

ایس ایس پی عمارہ اطہر نے ایس ایچ او مدیحہ ارشاد کی بات کو دہرایا کہ وقت بدل رہا ہے اور بہت سی لڑکیاں کانسٹیبل کی آسامیوں کے لیے بھی درخواستیں دے رہی ہیں، لیکن زیادہ خواتین کو شامل کرنے کے بجائے موجودہ افسران کو برقرار رکھنا اور ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ضروری ہے، جس سے دوسروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

مزید پڑھیں: ملک میں پہلی بار ووٹرز کا صنفی فرق ایک کروڑ 20 لاکھ سے کم ہوگیا

پولیس سروس آف پاکستان کے امیدواروں کے لیے یہ مختلف ہے، لیکن جونیئر خواتین اہلکاروں کو ترقیوں کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ وہ فیلڈ میں تعینات نہیں ہوتیں اور بہت ساری وہ شرطیں جو ترقیوں کے لیے ضروری ہیں وہ پوری نہیں کر پاتیں جبکہ لڑکے اور لڑکیاں دونوں ایک ہی ٹریننگ سے گزرتے ہیں، فیصلہ سازی میں مزید خواتین کی شمولیت سے صورتحال میں بہتری آئے گی کیونکہ مرد افسران اپنی خواتین ساتھیوں سے بات نہیں کرتے، اس لیے ان کے مسائل کے بارے میں نہیں جانتے۔

سینئر افسر سمجھتی ہیں کہ اگر لیڈر مضبوط ہے تو فورس میں صنفی حساسیت کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

تاہم 2009 میں سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد سے پولیس فورس میں شامل ہونے اور مختلف سینئر عہدوں پر کام کر کے ایس ایس پی سطح تک پہنچنے والی افسر کے لیے ان کا یہ سفر اتنا ہموار نہیں تھا۔

عمارہ اطہر کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب میں خواتین کے پہلے اے ایس پی بیج کا حصہ تھیں، اس لیے ان کے سامنے پہلا چیلنج فیلڈ پوسٹنگ تھا، یہ وہ میدان تھا جو اس وقت تک صرف ان کے مرد ہم منصبوں کے پاس تھا، اس وقت کے پولیس چیف نے ہمیں ہیڈکوارٹرز میں تعینات کرنا چاہا، لیکن میں لڑی کہ ہیڈکوارٹرز میں تعیناتی سے ہم ضائع ہوجائیں گی کیونکہ ہم بھی اسی تربیت سے گزرے تھے اور انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنی بات کو چھوڑیں، لہٰذا پہلا چیلنج قبول کیا جانا، ثقافتی اور معاشرتی رکاوٹوں کو عبور کرنا تھا، اب ہر خاتون اے ایس پی کو فیلڈ میں تعینات کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا

ایس ایس پی عمارہ اطہر نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ جس کا انہیں اور ان کی ساتھیوں کو سامنا کرنا پڑا وہ جنسی ذہنیت سے لڑنا تھا، چاہے وہ ذہنیت عدلیہ میں ہو یا ان کے سینئر افسران میں، کچھ افسران اب بھی سوال کرتے ہیں کہ خواتین فورس میں کیوں شامل ہوں، یہ سلسلہ جب سے جاری ہے جب میں نے شمولیت اختیار کی، جب کوئی مرد افسر غلطی کرتا ہے تو اس کے ساتھ رولز کے مطابق برتاؤ جاتا ہے لیکن خاتون کی جانب سے غلطی کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ وہ عورت ہونے کی وجہ سے یہ کام نہیں کر سکتی۔

یہ جنس پرست ذہنیت خواتین پر مشتمل فورس کے حصے کو مرکزی دھارے میں لاکر بدلی جاسکتی ہے، جب آپ ان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اسی لیے وہ خود کو ثابت کرنے سے قاصر ہیں، شاید ہی کوئی ڈی پی او خواتین کانسٹیبل سے ان کے مسائل سننے کے لیے ملتا ہو، اگر خواتین اہلکاروں کو معاوضہ مل رہا ہے تو ان سے کام بھی لینا چاہیے، ان کے اچھے کام کو نمایاں کیا جانا چاہیے اور ان کے ساتھ مرد ہم منصبوں کی طرح کا سلوک کیا جانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کچھ لڑکیاں اس وقت مطمئن ہو جاتی ہیں جب انہیں کوئی کام نہیں سونپا جاتا، یہ ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جو رات کی ڈیوٹی نہیں کر سکتے، اس لیے اس طرح کے کانسٹیبلز کے لیے افسران کو اوقات کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کی بہادر خواتین افسران سے ملیے

انہوں نے اس پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب میں سرگودھا ڈی پی او کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھی، میں نے ایک سب انسپکٹر کو بطور ایس ایچ او تعینات کیا اور وہ اپنی شادی کے پانچ دن بعد کام پر واپس آگئی کیونکہ وہ کارکردگی دکھانا چاہتی تھی، جب ایسے اہلکاروں میں سے چند کو ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں تو اس سے دوسرے اہلکاروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، ورنہ پولیس فورس کی صنفی حساسیت بھی کوئی مدد نہیں کرے گی۔

ایس ایچ او مدیحہ ارشاد کا اپنی سات سالہ سروس کا تجربہ بہت اچھا رہا ہے اور وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے اعتماد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، نوجوان افسر کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جو ایس ایس پی عمارہ اطہر کے چیلنجز سے مختلف تھے جنہوں نے اپنے بعد لڑکیوں کی پولیس میں شمولیت کی راہ ہموار کی۔

ان کو پیش آنے والے چیلنجز میں کیس کو حل کرنے، مشتبہ افراد کو پکڑنے اور دور دراز علاقوں میں چھاپے مارنے میں لگنے والی توانائی اور وقت شامل ہے، لیکن شکر ہے کہ میں کامیاب رہی اور مجھے اپنے خاندان اور محکمے کی طرف سے بہت زیادہ تعاون ملا ہے، وہ محسوس کرتی ہیں کہ پولیس میں خواتین کے لیے مختص کوٹے کو 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جانا چاہیے جبکہ خواتین کو اوپن میرٹ پر بھی منتخب کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں خواتین کے خلاف صنفی امتیاز کا تیزی سے بڑھتا رجحان

ڈی آئی جی (آپریشنز) کامران عادل سمجھتے ہیں کہ مختص 10 فیصد کوٹہ پورا کرنا بھی ایک کارنامہ ہوگا، وہ محسوس کرتے ہیں کہ لڑکیاں لیگ ورک، رات دیر تک کی ڈیوٹی اور سخت تربیت سے بچنا چاہتی ہیں اسی لیے فورس میں شامل نہیں ہوتیں، یہ ایک ایسی دلیل ہے جو ایس ایس پی عمارہ اطہر پہلے ہی اپنے تجربے سے غلط ثابت کر چکی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ وسائل، ساختی اور ثقافتی مسائل ہیں جن پر خواتین سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں، پنجاب میں تقریباً ایک لاکھ 75 ہزار پولیس اہلکار ہیں جن میں سے ایک فیصد سے بھی کم خواتین ہیں، یہی وجہ ہے کہ مقدمات کی قانونی ذمہ داریاں پوری نہیں کی جاسکتیں، کیونکہ چھاپے مارنے کے لیے خواتین اہلکار، سڑکوں پر یا پراسیکیوٹر نہیں ہیں، اس لیے خواتین کے لیے انصاف تک رسائی مشکل ہے۔

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین اہلکاروں کو مرکزی دھارے میں لانے اور تھانوں کے کلچر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں ہم صحیح راستے پر ہیں لیکن مزید محنت اور توانائی کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں