آئی ایم ایف نے قرض کی چھٹی قسط کی منظوری دے دی، شوکت ترین

اپ ڈیٹ 03 فروری 2022
شوکت ترین کے مطابق آئی ایم ایف نے قسط کی منظوری دی—فائل/فوٹو: اے ایف پی
شوکت ترین کے مطابق آئی ایم ایف نے قسط کی منظوری دی—فائل/فوٹو: اے ایف پی

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کے لیے اپنے پروگرام کے چھٹے جائزے کی تکمیل کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں واشنگٹن سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس جائزے کے مکمل ہونے سے پاکستان کو 75 کروڑ ایس ڈی آر (تقریباً ایک ارب ڈالر) ملیں گے جس کے بعد حالیہ آئی ایم ایف پروگرام سے اب تک ملنے والا قرض 2 ہزار 144 ملین ایس ڈی آر یعنی 3 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا، جو ملک کے کوٹے کے 106 فیصد کے برابر ہوگا۔

خیال رہے کہ آئی ایم ایف اُس ملک کو ای ایف ایف قرض کی سہولت فراہم کرتا ہے جو ساختی کمزوریوں کی وجہ سے درمیانی مدت کے ادائیگیوں کے توازن کے سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہو جنہیں دور کرنے میں وقت لگتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف پروگرام کیلئے 5 پیشگی اقدامات مکمل کرنے ہوں گے، شوکت ترین

پاکستان نے 4 ارب 26 کروڑ 80 لاکھ ایس ڈی آر یعنی 6 ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ جولائی 2019 میں 39 ماہ پر محیظ ای ایف ایف انتظامات کیے تھے جو کوٹے کا 210 فیصد ہے۔

اس پروگرام کا مقصد پاکستان کی معیشت میں مدد کرنے اور کووڈ-19 کی وبا کے درمیان زندگیوں اور روزگار معاش کو بچانے، معاشی اور قرضوں کی پائیداری اور اسٹرکچرل اصلاحات کو آگے بڑھانا ہے تاکہ مضبوط، روزگار سے بھرپور اور دیرپا ترقی کی بنیادیں ڈالی جائیں جس سے تمام پاکستانیوں کو فائدہ پہنچے۔

قبل ازیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں شوکت ترین نے کہا کہ ‘میں خوشی کے ساتھ اعلان کر رہا ہوں کہ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کے لیے اپنے پروگرام کی چھٹی قسط کی منظوری دے دی ہے’۔

وزیرخزانہ کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘الحمدللّٰہ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کا چھٹا نظرثانی بورڈ مکمل کر لیا ہے’۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہوگئے، معاہدہ اسی ہفتے ہوجائے گا، مشیر خزانہ

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط کے اجرا کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے سے معیشت کے استحکام اور اصلاحات کے عمل میں مدد ملے گی’۔

یاد رہے کہ شوکت ترین نے یکم نومبر 2021 کو پاکستان سنگل ونڈو لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ کی بحالی کے معاملات طے ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمارے پاس حکومت میں دو تہائی اکثریت نہیں ہے اور’مذاکرات میں آئی ایم ایف کو ہم نے یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے‘۔

واضح رہے کہ پاکستانی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ڈیڈ لاک اس وقت ٹوٹ گیا تھا جب دونوں فریقین نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے معاملے پر اپنے اپنے مؤقف میں لچک کا فیصلہ کیا تھا۔

مارچ 2021 میں پاکستان نے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے حوالے سے فنڈ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کی آئی ایم ایف بورڈ نے بھی منظوری دی تھی۔

شوکت ترین کی سربراہی میں پاکستان کی اقتصادی ٹیم نے فنڈ کے حکام سے مذاکرات کے کئی دور کیے تاکہ انہیں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا میں حکمران پاکستان تحریک انصاف کی عددی طاقت سے آگاہ کیا جا سکے جہاں اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ووٹ کی اکثریت سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور

یاد رہے کہ حکومت نے 28 جنوری کو اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود سینیٹ میں اسٹیٹ بینک ترمیمی بل صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کروایا تھا، یوں حکومت ضمنی مالیاتی بل سمیت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جائزے کے لیے درکار دونوں بلز منظور کرانے میں کامیاب ہوئی تھی۔

سینیٹ میں مذکورہ بل وزیر خزانہ شوکت ترین نے پیش کیا جس کے حق میں 43 جبکہ مخالفت میں 42 ووٹ آئے جس پر چیئرمین سینیٹ نے بل کو منظور قرار دیا۔

اس سے قبل حکومت کو اسٹیٹ بینک کا بل بدھ کو سینیٹ سے منظور کروانا تھا تاکہ آئی ایم ایف بورڈ 28 جنوری کو ہونے والے اپنے اجلاس میں چھٹے جائزے کی تکمیل پر غور کر سکے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

جس پر آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کی درخواست پر چھٹا جائزہ مکمل کرنے کا عمل مؤخر کردیا تھا۔

پاکستان کو 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام پر نظرثانی کے لیے آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس 12 جنوری کو شیڈول تھا، جسے پاکستان کی درخواست پر پیشگی اقدامات کے اطلاق کا وقت دینے کے لیے ری شیڈول کرکے 28 جنوری کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Feb 03, 2022 02:53pm
آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کا مقصد، پاکستان مغربی ممالک کے چنگل سے باہر نہ نکل سکے۔