جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے اقلیتی فیصلے نے تمام نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں

05 فروری 2022
29 جنوری کو سپریم کورٹ کی جانب سے اکثریتی فیصلہ جاری کیا گیا تھا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
29 جنوری کو سپریم کورٹ کی جانب سے اکثریتی فیصلہ جاری کیا گیا تھا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں اقلیتی فیصلے نے تمام نظرثانی کی درخواستوں کو خارج کردیا اور اپنے 19 جون 2020 کے مختصر فیصلے کے ساتھ تفیصلی وجوہات کو بھی برقرار رکھا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ موجودہ کیس میں ایسا مواد موجود ہے جو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) سے ایسی وضاحت طلب کرتا ہے جن کا فراہم کرنا درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور عدالت کو ان کی دیانت پر لگائے گئے الزامات سے بچانے کے لیے لازمی ہے۔

29 جنوری کو سپریم کورٹ کی جانب سے اکثریتی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ نے ٹیکس حکام کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچوں کے نام پر موجود بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق تفتیش کی ہدایات دیتے ہوئے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کے لیے کہا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ان کے بچوں کے نام پر تین جائیدادیں ہیں جنہیں ظاہر نہیں کیا گیا جو کہ قدرتی انصاف کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر قانون نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کو 'تضاد کا حامل' قرار دے دیا

اپنے فیصلے میں جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ نظرثانی کی درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے اور نئی منظر عام پر آنے والی متعلقہ اور حقیقی معلومات پر غور کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اکثریتی نقطہ نظر نے بے ترتیب سی صورتحال پیدا کر دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک غیر تسلی بخش صورتحال موجود ہے جو یہ تاثر دیتی ہے کہ عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس کے فیصلے کے مطابق اپنے ہی ایک جج کے لیے ایک مختلف معیار اپنایا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کو انصاف فراہم کرنے والے افراد کے طور پر معاشرے میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے، ججز معاشرے کے اہم افراد میں سے ہیں لہٰذا حق کو تلاش کرنے اور اس کا سامنا کرنے کے فرض کو نظر انداز کرنا اللہ کے واضح حکم کے خلاف ہے جس نے مراعات یافتہ افراد کو ترجیحی سلوک برتنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔

مزید پڑھیں: سرینا عیسیٰ کو اہم معاملے پر سماعت کا پورا حق نہیں دیا گیا، نظرثانی کیس کا تحریری فیصلہ

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نہ تو بینچ کے 4 اراکین کے فیصلے اور نہ ہی جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلے، یا اس طرح کے دلائل یا تناسب جو ان کے درمیان مشترک ہو، کوئی پابندی کے قابل نظیر یا اثر نہیں رکھتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کے تین فیصلے ہیں، ایک موجودہ فیصلہ ہے جسے چار ججوں کی حمایت حاصل ہے، یعنی چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد کی۔

باقی دو فیصلوں میں سے ایک جسٹس یحییٰ آفریدی کا تھا، ایک اور فیصلہ ابھی تک بینچ میں موجود چار ججوں کی طرف سے تھا یعنی جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان جبکہ جسٹس منظور ملک پہلے ہی ریٹائر ہو چکے تھے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہے جس کو ان ججوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو جنہوں نے نظرثانی کی درخواستوں کو سنا اور ان کا فیصلہ کیا اور ابھی تک عدالت میں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں