کراچی: ناقابل استعمال سویا بین کی درآمد کی اجازت دینے پر سینئر افسران عدالت طلب

اپ ڈیٹ 07 فروری 2022
ر آمد کردہ کھیپ انتہائی نمی زدہ اور پھپھوندی سے بھرا ہوئی پائی گئی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز
ر آمد کردہ کھیپ انتہائی نمی زدہ اور پھپھوندی سے بھرا ہوئی پائی گئی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے وزارت قومی غذائی تحفظ اور تحقیق کے دو سینئر افسران کو اس بات کی وضاحت کے لیے طلب کرلیا کہ 2018 میں امریکا سے انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں سویا بین لانے والے بحری جہاز کو کلیئرنس دینے پر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جائے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) مکیش کمار تلریجہ نے غیر صحت بخش سویا بین کی مبینہ درآمد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران یہ حکم دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج نے کہا کہ چارج شیٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ تحفظ خوراک کے اس وقت کے ایڈیشنل سیکریٹری محمد ایوب چوہدری کا نام مجاز حکام سے منظوری کے لیے ملزمان کے کالم میں نہیں ڈالا گیا تھا۔

جج نے مزید کہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت ملزمان کے ریکارڈ کیے گئے بیان کے مطابق محکمہ پلانٹ پروڈکشن (ڈی پی پی) کے ڈائریکٹر جنرل فلک ناز اور ایڈیشنل سیکریٹری کے درمیان معاملے پر بحث کے بعد ایک ٹیکنیکل کمیٹی بنائی گئی تھی، وہ ٹیکنیکل کمیٹی ڈاکٹر باسط، عمر فاروق، اخلاق حسین اور ڈاکٹر اخلاق احمد پر مشتمل تھی۔

اس ٹیکنیکل کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق وہ بحری جہاز ڈی جی فلک ناز کی زبانی ہدایت پر کلیئر کردیا گیا تھا۔

چارج شیٹ میں مزید تجویز کیا گیا ہے کہ تفتیشی افسر نے ملزمان کی فہرست میں ان افسران کے ناموں کا ذکر نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں:درآمدات بڑھنے سے جولائی تا دسمبر تجارتی خسارہ دگنا ہوگیا

جج نے ڈی جی، ایڈیشنل سیکریٹری اور دیگر کو ملوث کرنے والے گواہوں کے بیانات کو دیکھتے ہوئے کہا کہ مجرمانہ مواد پایا گیا ہے۔

تاہم جج نے حتمی چارج شیٹ پر کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے دونوں افسران کو تحریری وضاحت کے ساتھ طلب کیا ہے کہ وہ بتائیں کیوں انہیں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے ملزم کے طور پر نامزد نہ کیا جائے۔

خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 28 مارچ 2018 کو آل پاکستان سولوینٹ ایکسٹریکٹر ایسوسی ایشن ملتان کے اس وقت کے چیئرمین کی جانب سے بھیجے گئے خط پر انکوائری شروع کی تھی۔

خط میں الزام لگایا گیا تھا کہ ڈی پی پی، کراچی اور متعلقہ وزارت کے افسران و اہلکار رشوت کے حصول کے لیے تیل کے بیجوں کے کارگوز کی کلیئرنس میں بلا جواز تاخیر کا باعث بن رہے ہیں۔

فیکٹ فائنڈنگ انکوائری میں اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ کچھ افسران بدعنوانی میں ملوث ہیں، جنہوں نے تجارتی بحری جہاز کی کلیئرنس کے لیے ایک کروڑ 60 لاکھ روپے کی رشوت لی تھی۔

بعد میں کمیٹی میں شامل چار افسران جنہوں نے جہاز کو چھوڑنے کا حکم دیا تھا، ان کو معطل کر دیا گیا۔

مزید پڑھیں:نومبر کے دوران 30 اشیا کی درآمدات میں 142 فیصد اضافہ

چارج شیٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بات ریکارڈ پر آچکی ہے کہ ڈی پی پی نے امریکا سے سویا بین کے تیل کے بیجوں کی درآمد کے لیے مختلف درآمد کنندگان کو اجازت دی تھی۔

انڈینٹر ایم ۔ایس سی ٹریڈ گروپ کراچی کے ذریعے تیل کے بیجوں کو امریکا سے درآمد کیا گیا تھا، اور یہ درآمد کردہ کنسائنمنٹ پورٹ قاسم پر تجارتی جہاز ویٹا اوشین کے ذریعے 13 دسمبر 2018 کو پہنچی تھی۔

چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ معائنے کے دوران در آمد کردہ کھیپ انتہائی نمی زدہ اور پھپھوندی سے بھرا ہوئی پائی گئی تھی۔

چارج چیٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ معائندے کے دوران درآمد شدہ کھیپ میں گھاس کی قسم کے پتے بھی پائے گئے۔

معائنہ کرنے والی ٹیم نے اس کے کچھ نمونے بھی حاصل کیے اور اس کھیپ کو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ جراثیم سے بھرا ہوا پایا۔

تبصرے (0) بند ہیں