نفرت انگیز تقریر کیس: برطانوی عدالت میں پولیس کے گواہ پر جرح

اپ ڈیٹ 08 فروری 2022
جرح کے دوران استغاثہ اور پولیس گواہ نے ریکارڈر کے مواد کے ساتھ ساتھ آڈیو کیسٹ ٹیپس کا حوالہ دیا جو پولیس نے 
 برآمد کی تھیں —فوٹو: ٹوئٹر/ مصطفیٰ عزیز آبادی
جرح کے دوران استغاثہ اور پولیس گواہ نے ریکارڈر کے مواد کے ساتھ ساتھ آڈیو کیسٹ ٹیپس کا حوالہ دیا جو پولیس نے برآمد کی تھیں —فوٹو: ٹوئٹر/ مصطفیٰ عزیز آبادی

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف تشدد پر اکسانے کے مقدمے کی سماعت دوسرے ہفتے میں داخل ہونے پر میٹروپولیٹن پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایک جاسوس کانسٹیبل سے کنگسٹن اپون تھیمز کی عدالت میں جرح کی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افسر نے عدالت کو 2019 میں لندن کے علاقے ایجویئر میں متحدہ قومی موومنٹ کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ پر چھاپے کے دوران حاصل ہونے والے شواہد سے متعلق آگاہ کیا۔

افسر نے چھاپے کے دوران ایک بی ٹی انٹرپرائز کے وائس ریکارڈر کی برآمدگی سے متعلق بتایا جس کے ڈیجیٹل مواد کی بعد فرانزک کے ذریعے جانچ کی گئی۔

اس ریکارڈر سے آڈیو کالز کرنا اور ریکارڈ کرنا ممکن تھا جس کے ذریعے لندن سیکریٹریٹ سے رابطہ کیا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین نے مہاجروں کے حقوق کیلئے ’مکمل جنگ‘ کی بات کی، عدالت کو آگاہی

زیادہ تر کالز اردو زبان میں تھیں، لہٰذا تفتیش کاروں نے واقعات کی ٹائم لائن اور ٹرانسکرپٹ بنانے کے لیے مترجمین کی مدد لی۔

جرح کے دوران استغاثہ اور پولیس گواہ نے ریکارڈر کے مواد کے ساتھ ساتھ آڈیو کیسٹ ٹیپس کا حوالہ دیا جو پولیس نے برآمد کی تھیں۔

ٹائم لائن کو ترتیب دینے کے لیے دفتر سے برآمد ہونے والی نوٹ بکس سے بھی مدد لی گئی، استغاثہ نے تشدد کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کا حوالہ بطور ثبوت پیش کیا۔

الطاف حسین پر 22 اگست 2016 کو کی گئی تقریر کے دوران تشدد پر اکسانے پر دہشت گردی ایکٹ 2006 کی دفعہ ایک (2) کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: نفرت انگیز تقریر: الطاف حسین کے خلاف لندن میں مقدمے کی کارروائی کا آغاز

یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ تحقیقات کے دوران کراؤن پراسیکیوشن سروس کی جانب سے 2019 کے اوائل میں پاکستانی حکام کو درخواست کا ایک خط بھیجا گیا تھا، افسر نے تحقیقات کے سلسلے میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں انہیں کچھ اشیا فراہم کی گئیں۔

سماعت کے دوران ریکارڈ شدہ کالز کا ٹرانسکرپٹ کا بار بار حوالہ دیا گیا جس میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم رہنما عامر خان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

الطاف حسین نے بار بار ایم کیو ایم کے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل، سندھ پولیس کو 'ٹھیک' کرنے اور اس وقت کے ڈی جی رینجرز بلال اکبر کا مقابلہ کرنے کے لیے کراچی میں رینجرز ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرنے کی بات کی۔

ایک کال کے دوران الطاف حسین نے مبینہ طور پر کہا کہ ’ڈی جی رینجرز کو 60 افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جانا چاہیے، رینجرز ہیڈکوارٹرز کے اندر گھسنے اور بلال اکبر کو باہر نکالنے کے لیے مجھے 5 لاکھ لوگوں کی ضرورت ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی پولیس کی الطاف حسین کی متنازع تقریر سے متعلق تفتیش مکمل

ٹرانسکرپٹ کے مطابق پارٹی کارکنوں کے ساتھ دیگر کالز میں ایک نامعلوم شخص نے کہا کہ ’اگر بھائی حکم دیں تو یہ آج ہی ہو جائے گا۔‘

ٹرانسکرپٹ میں الطاف حسین نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ ’جو ٹی وی چینلز ایم کیو ایم کو برا بھلا کہتے ہیں، ان سے کہو کہ وہ اپنا کیمرہ لے کر چلے جائیں۔‘

انہوں نے خاص طور پر 'جیو' اور 'اے آر وائی' پر غصے کا اظہار کیا اور دھمکی دی کہ ان کے مالکان کو گدھے پر بٹھا کر پورے شہر میں پریڈ کرائیں۔

ان کالز میں الطاف حسین نے گلشن، کورنگی اور ملیر کے سیکٹر انچارجز سے متعدد درخواستیں کیں کہ ان میں سے ہر ایک 50 ہزار افراد کو لائے تاکہ ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہو سکے۔

ٹرانسکرپٹ کے مطابق الطاف حسین نے کہا کہ ’چاہے 100، 200 یا 500 افراد کی قربانی بھی دینی پڑے لیکن ڈی جی رینجرز کو باہر نکالیں کیونکہ اس نے ہمارے سیکڑوں کارکنان کو شہید کیا ہے۔‘

ٹرانسکرپٹ کے مطابق الطاف حسین نے کہا کہ ’روز مرنے سے ایک بار مرنا بہتر ہے، آئیں دیکھتے ہیں کہ وہ ہم میں سے اور کتنوں کو مار سکتے ہیں، ایک دن میں وہ جتنے مار سکتے ہیں انہیں مارنے دیں تاکہ ہم جہاد میں شامل ہو سکیں۔'

الطاف حسین کی کارکنوں سے خطاب کی ویڈیو جیوری کے ارکان کے سامنے چلائے جانے کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں