سینیٹ: بچوں کی تحویل سے متعلق ماں کے حق کو مضبوط بنانے کا بل منظور

09 فروری 2022
سینیٹ سے مںظور ایکٹ کے مطابق سگی ماں اپنے بچے کی تحویل کی حقدار ہے جب تک کہ لڑکا 7 سال کی عمر اور لڑکی 16 سال کی عمر یا بالغ نہ ہو جائے— فائل فوٹو / یونیسف
سینیٹ سے مںظور ایکٹ کے مطابق سگی ماں اپنے بچے کی تحویل کی حقدار ہے جب تک کہ لڑکا 7 سال کی عمر اور لڑکی 16 سال کی عمر یا بالغ نہ ہو جائے— فائل فوٹو / یونیسف

پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) نے بچوں کی تحویل سے متعلق گارڈین اینڈ وارڈز (ترمیمی) ایکٹ 2020 منظور کرلیا۔

مذکورہ بل میں ماؤں کو ان کے بچوں کی تحویل کے حوالے سے تحفظ فراہم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سگی ماں اپنے بچے 7 سال کی عمر اور بچی کی 16 سال کی عمر یا بالغ ہونے تک تحویل کی حقدار ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گارڈین اینڈ وارڈز (ترمیمی) ایکٹ 2020، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے بطور پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا تھا جسے ابھی قومی اسمبلی سے منظور ہونا باقی ہے۔

سینیٹ سے مظور کیا گیا بل بچوں کی تحویل اور تحویل کے سلسلے میں ترجیح کی درجہ بندی کو باقاعدہ مزید مربوط کرتے ہوئے موجودہ قانون کی مزید وضاحت کرتا ہے اور ماؤں کو ان کے بچوں کے حوالے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ایکٹ کی دفعہ 19-اے کے ساتھ سیکشن 19-بی سے 19-جی تک کو شامل کیا گیا ہے، جو سگی ماں کے اپنے بچوں کی تحویل کے حق سے متعلق ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزارت قانون نے 2 انگلیوں کا ٹیسٹ مسترد کردیا

تاہم ترمیم شدہ قانون کی دفعہ 19-بی کے مطابق سگی ماں کی غیر موجودگی میں یا اگر ماں اپنے حق سے دستبردار ہو جائے یا اس کا حق قانونی طور پر ختم ہوگیا ہو تو اس کے 7 سال سے کم عمر کے بیٹے اور 16 سال سے کم عمر یا نابالغ بیٹی کی تحویل ان کے خاندان کی خاتون رشتہ داروں کے پاس درج ذیل ترتیب سے ہوگی۔

سب سے زیادہ حق نانی اس کے بعد دادی، سگی بہن، ماں کی جانب سے بہن، خون کے رشتے کی بہن، سگی بہن کی بیٹی، ماں کی جانب سے جو بہن ہو اس کی بیٹی، خونی رشتے دار بہن کی بیٹی، ماں کی بہن یعنی خالہ اور باپ کی بہن یعنی پھوپھی وغیرہ کا حق ہوگا۔

جب سیکشن 19-اے، 19-بی کے تحت تحویل کے لیے اہل خواتین میں سے کوئی بھی دستیاب نہ ہو یا اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو یا ایسی عورت حزانت (تحویل کا قانونی حق) کی حقدار نہ ہو، تو سیکشن 19- سی کے مطابق مرد رشتہ دار مندرجہ ذیل ترتیب میں بچے کی تحویل کے لیے اہل ہو جائیں گے۔

باپ، نانا، دادا ، سگا بھائی، ماں کی جانب سے سگا بھائی، خونی رشتے دار بھائی، سگے بھائی کا بیٹا، ماں کی جانب سے سگے بھائی کا بیٹا اور خونی رشتے دار بھائی کا بیٹا حقدار ہوگا۔

مزید پڑھیں:2020 ملک میں خواتین و بچوں کے حقوق سے متعلق قانون سازی کا سال

بالکل اسی طرح جب دفعہ 19-اے، 19-بی اور 19-سی میں بتائے گئے افراد میں سے کوئی بھی دستیاب نہ ہو یا وہ بچے کی تحویل قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں یا ان کی حزانت (بچے کی تحویل کا قانونی حق) ختم ہوگیا ہو تو حزانت بچے کی فلاح و بہبود کے لیے وراثت کے مضمون کے حکم سے قریبی رشتہ دار کو دے گی۔

بشرطیکہ یہ فیصلہ کرنے میں بچے کی خواتین کے رشتے داروں کے قانونی حق کو ترجیح دی جائے گی۔

ترمیمی ایکٹ کی دفعہ 19-اے، 19-بی اور 19-سی کے تحت تحویل کا قانونی حق صرف اس صورت میں ختم ہو سکتا ہے جب عدالت یہ فیصلہ کرے کہ ایسے شخص کی تحویل میں بچے کی فلاح و بہبود نہیں ہے۔

اس کے علاوہ سیکشن 19-اے سے 19-ای کی دفعات کے باوجود، جہاں لڑکا 7سال کی عمر اور لڑکی10 سال کی عمر کو پہنچ جائے تو ان کی ترجیح کے مطابق تحویل پر مناسب غور کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں