بھارت: باحجاب مسلمان لڑکی 'ہندوتوا' حامیوں کے سامنے ڈٹ گئی

اپ ڈیٹ 09 فروری 2022
بے خوف طالبہ نعرہ لگاتی ہوئی اپنے کالج کی عمارت کی جانب بڑھتی رہی—فوٹو: ٹویٹر/اسکرین گریب
بے خوف طالبہ نعرہ لگاتی ہوئی اپنے کالج کی عمارت کی جانب بڑھتی رہی—فوٹو: ٹویٹر/اسکرین گریب

بھارت کی ریاست کرناٹک میں ہندوتوا کے حامیوں کے ہجوم نے حجاب میں ملبوس ایک طالبہ کا گھیراؤ کیا اور اس کی تضحیک کی، جس کے جواب میں طالبہ نے ’اللہ اکبر‘ (خدا سب سے بڑا ہے) کا نعرہ لگایا۔

سرکاری خبررساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی علاقے منڈیا میں اپنے کالج کی پارکنگ میں مسکان خان نامی طالبہ نے اپنی اسکوٹر کھڑی کی جس کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ہجوم ان کی جانب بڑھا اور چیخ و پکار کرتے ہوئے انہیں گھیرنے کی کوشش کی۔

سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوتی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بے خوف طالبہ نعرہ لگاتی ہوئی اپنے کالج کی عمارت کی جانب بڑھتی رہی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کلاس روم میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج میں شدت

بعدازاں طالبہ نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب سے میں نے (یہاں) پڑھنا شروع کیا ہے، میں نے ہمیشہ برقعہ اور حجاب پہنا ہے، جب میں کلاس میں داخل ہوتی ہوں تو برقعہ اتار دیتی ہوں، پرنسپل نے کچھ نہیں کہا، یہ سب باہر کے لوگوں نے شروع کیا‘۔

بھارتی صحافیوں، معروف شخصیات کا اظہارِ برہمی

مسکان کو ہراساں کیے جانے پر میڈیا اور بالی ووڈ کی کچھ معروف شخصیات، دانشوروں اور سیاست دانوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا، اور ملک کو تنزلی کی جانب لے جانے پر مودی حکومت کی مذمت کی۔

مزید پڑھیں: بھارت: حجاب نہ اتارنے پر کالج طالبات کے کلاس میں بیٹھنے پر پابندی

بھارتی نیوز اینکر راجدیپ سردیسائی نے کہا کہ کرناٹک کی ایک تازہ ویڈیو میں ’جے شری رام‘ کے نعرے لگانے والے مردوں کو حجاب میں ملبوس ایک نوجوان طالبہ کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، انتہاپسندی کے قوم پر یہی اثرات ہوتے ہیں، یہ ہمیں لباس، خوراک اور مذہب پر تقسیم کرتا ہے، ہمیں نوجوانوں کے لیے نوکریوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے، لیکن ہم ان کے لباس پر توجہ دیتے ہیں! یہ شرمناک ہے۔

بھارتی فلمساز پوجا بھٹ نے کہا کہ ’ہمیشہ کی طرح ایک عورت کو دھمکانے کی کوشش کرنے کے لیے مردوں کا پورا ہجوم درکار رہا، اپنے زعفرانی رنگ کے دوپٹوں کو ہتھیار کی طرح لہرا کر انہوں نے اپنی کمزوری کو سفاک پن سے چھپانے کی کوشش کی‘

انہوں نے کہا کہ مقصد سے بھٹکی نسل کا ایک بڑا حصہ نفرت کی نذر ہو چکا ہے۔

بھارتی مصنف ویبھو وشال نے افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کس حالت میں ڈھل چکا ہے۔

کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں ایک سرکاری اسکول میں حجاب پہن کر کلاس روم میں داخل ہونے پر پابندی کے خلاف طالبات کی جانب سے مہم شروع ہوئے ایک مہینہ ہو چکا ہے، یہ خبر انٹرنیٹ پر پھیل گئی اور طالبات نے اسکول کے گیٹ کے باہر پڑھائی جاری رکھتے ہوئے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔

حالات سنبھلنے کی بجائے دیگر اسکولوں نے بھی آر ایس ایس کے ان حامیوں کے خوف سے حجاب پر پابندی لگادی جنہوں نے حالات کو مزید بگاڑنے کے لیے ساتھ ساتھ ہندوتوا کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں برقع پر پابندی کا مطالبہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، اسدالدین اویسی

ریاستی مشینری اس گروہ کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہے، حکمراں جماعت کے کچھ ارکان نے حجاب پر پابندی کے حق میں بیانات بھی جاری کیے جس سے آر ایس ایس کے ارکان کو اس انتشار کو مزید ہوا دینے کی ترغیب ملی۔

کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومائی نے حالات پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد ریاست کے تمام اسکولوں اور کالجوں کو 3 روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا کیونکہ کیمپس میں حجاب پہننے والی طالبات کا تنازع شدت اختیار کر چکا ہے اور کئی اضلاع سے تشدد کی اطلاع بھی ملی۔

مزید پڑھیں: حجاب پر پابندی کیخلاف مظاہروں میں شدت، ریاست کرناٹکا میں تمام اسکول بند

کچھ علاقوں کے کالجز میں زعفرانی رنگ کے دوپٹے پہنی ہندو طالبات حجاب پہننے والی طالبات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اور اس پابندی کا دفاع کرتی نظر آئیں۔

عملے، حکومتی نمائندوں اور احتجاج کرنے والی طالبات کے درمیان اس حوالے سے کئی میٹنگز مسئلے کو حل کرنے میں اب تک ناکام رہی ہیں، ریاست کے وزیر تعلیم بی سی ناگیش نے بھی یہ پابندی ہٹانے سے انکار کر دیا۔

پاکستانی شخصیات کی مذمت

مسکان خان کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کی پاکستانی سیاستدانوں نے بھی مذمت کی ہے، وزیر داخلہ شیخ رشید نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان لڑکی نے بھارت کی سیاست اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو بے نقاب کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: مخصوص حالات میں حجاب پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، یورپی عدالت

دوسری جانب وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ’فاشسٹ ہندوتوا بریگیڈ‘ کے سامنے مسکان کی ’جرات اور اس کے اعتماد کو سراہا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مسلمان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مسلمانوں کو مخصوص علاقوں تک محدود کرنے کے بھارتی ریاست کے منصوبے کا حصہ ہے۔

وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ غیر مستحکم قیادت میں بھارتی معاشرہ تیزی سے زوال پذیر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت:کرناٹکا میں ایک اور کالج میں باحجاب طالبات کا داخلہ بند

ان کے علاوہ نوبل انعام یافتہ اور سرگرم سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کو حجاب میں اسکول جانے سے روکنا تشویشناک ہے۔

انہوں نے بھارتی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلم خواتین کو پسماندگی کا شکار بنائے جانے سے روکیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kh Feb 09, 2022 08:51pm
سلام بہادر لڑکی کو جو اپنے دین کے لیے چٹان بن گئ :