حجاب پر پابندی کے خلاف بھارت کی مزید ریاستوں میں احتجاج

10 فروری 2022
حجاب پر پابندی کے خلاف کولکتہ میں سیکڑوں طلبہ نے احتجاج کیا—فوٹو:رائٹرز
حجاب پر پابندی کے خلاف کولکتہ میں سیکڑوں طلبہ نے احتجاج کیا—فوٹو:رائٹرز

بھارت کی ایک ریاست کے اسکولوں میں طالبات پر حجاب پہننے پر پابندی عائد کیے جانے پر اشتعال اور غصہ نہ صرف بھارت بلکہ بیرون ملک بھی پھیل رہی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک بھارتی پارلیمنٹیرین اور ایک نوبل انعام یافتہ شخصیت نے بھی اس پر اعتراض کیا جبکہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھی اس معاملے پر رد عمل ظاہر کیا ہے۔

کولکتہ میں گزشتہ روز سیکڑوں طلبہ نے حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی اور سڑکیں بلاک کردیں۔

کانگریس پارٹی کے رکن پارلیمنٹ (ایم پی ) ششی تھرور کا کہنا تھا کہ بھارت میں مذہبی لباس پر پابندی لگانے والا کوئی قانون نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ششی تھرور کا مزید کہنا تھا کہ یہاں بھارت میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو مذہبی لباس پر پابندی عائد کرے، جیسے سکھوں کی پگڑی یا مسیحی افراد کے گلے میں صلیب ڈالنا یا پیشانی پر تلک لگانا، یہ سب چیزیں فرانس کے سرکاری اسکولوں میں منع ہیں لیکن بھارت میں ان سب چیزوں کی اجازت ہے۔

یہ بھی پڑھیںبھارت:کرناٹکا میں ایک اور کالج میں باحجاب طالبات کا داخلہ بند

بھارت میں کھڑے ہونے والے اس تنازع پر نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کا بھارتی رہنماؤں سے کہنا تھا کہ وہ مسلم خواتین کو سماجی سطح پر دبانے کو کوششوں اور اقدامات کو روکیں۔

اپنے ٹوئٹ میں ملالہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو حجاب پہن کر اسکول جانے سے روکنا بہت خوفناک ہے، حجاب کے معاملے پر خواتین کو کسی طرح سے بھی مجبور کرنا غیر مناسب ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ نے گزشتہ ہفتے اس طرح کی خبریں دی تھیں کہ کرناٹک کے کئی اسکولوں نے وزارت تعلیم کے ایک حکم کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پہننے والی مسلم لڑکیوں کو داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، جس نے والدین اور طالب علموں کو احتجاجی مظاہروں پر مجبور کردیا۔

مزید پڑھیں:بھارت: حجاب نہ اتارنے پر کالج طالبات کے کلاس میں بیٹھنے پر پابندی

مسلم طلبہ اور والدین کے مظاہروں کے جواب میں حالیہ دنوں میں پابندی کی حمایت کرتے ہوئے ہندو طلبہ نے بھی جوابی مظاہرے کیے اور ریلیوں کی شکل میں اسکولوں میں آئے، دو کمیونیٹیز کے درمیان حالیہ کشیدگی اور تناؤ کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے کرناٹک کی ریاستی حکومت تین دن کے لیے اسکول اور کالج بند کرنے پر مجبور ہوگئی۔

ایک چشم دید گواہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کولکتہ میں احتجاج کرنے والی طالبات میں زیادہ تر حجاب پہننے والی خواتین تھیں، ان مظاہروں میں کوئی حادثہ نہیں ہوا، مظاہرین طلب کا کہنا تھا کہ انہوں نے آئندہ روز دوبارہ احتجاج کا منصوبہ بنایا ہے۔

تنازع کے خلاف طلبہ کی جانب سے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بھی مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

کرناٹک جہاں 12 فیصد آبادی مسلمان ہے اور ہندو قوم پرست بی جے پی کی حکومت ہے وہاں ریاستی حکومت کا ایک حکم میں کہنا ہے کہ طلبہ کو اسکولوں کے وضع کردہ ڈریس کوڈ پر عمل کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:حجاب پر پابندی کیخلاف مظاہروں میں شدت، ریاست کرناٹکا میں تمام اسکول بند

بھارت کے ٹیکنالوجی کے مرکز بنگلور میں انتظامیہ نے گزشتہ روز اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے ارد گرد احتجاج پر دو ہفتوں کے لیے پابندی لگا دی ہے۔

پاکستان کا مؤقف

بھارت میں طلبہ پر حجاب پہننے پر عائد پابندی پر تنقید کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ طلبہ پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور عالمی برادری سے صورتحال کا نوٹس لینے کے لیے زور دیا۔

کرناٹک میں ہندو انتہا پسندوں کے ایک ہجوم کا حجاب میں ملبوس ایک مسلمان لڑکی کو زدوکوب کرنے کے واقعے پر رد عمل دہتے ہوئے وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مسلمانوں کو سماجی سطح پر دبانے کے بھارتی ریاستی منصوبے کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:باحجاب طالبات پر پابندی اور ہراساں کرنے پر بھارتی ناظم الامور دفتر خارجہ طلب

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مزید کہناتھا کہ بھارت میں اقلیتی برادریوں کے ساتھ جاری بدسلوکی انتہائی تشویشناک ہے، بھارت روشن خیالی اور جمہوریت کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ وہاں کے مسلمان شہریوں کو اپنے لباس پر بھی پابندیوں کا سامنا تھا۔

مذہبی ہم آہنگی کے لیے وزیر اعظم کے خصوصی نمائندے اور پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ جمعہ کا دن 'بھارت کی بیٹیوں' کے ساتھ یکجہتی کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں