پنجاب: ہسپتالوں میں صلاحیت سے کم اعضا کی پیوندکاری سے اتھارٹی پریشان

11 فروری 2022
صلاحیت سے کم پیوندکاری سے غیر قانونی سرجنز اور اعضا حاصل کرنے والوں کو زیادہ مواقع میسر آتے ہیں — فائل فوٹو
صلاحیت سے کم پیوندکاری سے غیر قانونی سرجنز اور اعضا حاصل کرنے والوں کو زیادہ مواقع میسر آتے ہیں — فائل فوٹو

سرکاری اعداد و شمار میں پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں اعضا کی پیوندکاری صلاحیت سے بہت کم کیے جانے کے انکشاف کے بعد پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (پی ایچ او ٹی اے) نے تحقیقات کا آغاز کردیا۔

صلاحیت سے کم پیوندکاری سے غیر قانونی سرجنز اور اعضا حاصل کرنے والوں کو زیادہ مواقع میسر آتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس انکشاف کے بعد اتھارٹی تحقیقات میں قانونی سرجری کو فروغ دینے کے لیے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں موجود سہولیات کا جائزہ لے گی۔

اتھارٹی سے رجسٹرڈ صوبے بھر میں 60 صحت مراکز میں اعضا کی پیوندکاری کی جاتی ہے جہاں پر بہت کم تعداد میں سرجریاں کرنے کے سرکاری اعداد و شمار کے انکشاف کے بعد یہ پیشرفت سامنے آئی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں پچھلے چار سالوں کے دوران 44 ہزار اعضا کی پیوندکاری کی گئی۔

اس میں سے 'پی ایچ او ٹی اے' سے رجسٹرڈ اداروں میں صرف 40 فیصد سرجریاں کی گئیں جبکہ اس میں سے 95 فیصد سرجریاں لاہور کے دو صحت کے مراکز پاکستان کڈنی لیور انسٹی ٹیوٹ اور شیخ زید ہسپتال میں کی گئیں، ان سرجریوں میں جگر، گردے، کورنیا اور بون میرو ٹرانسپلانٹ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غیر قانونی اعضا کی پیوند کاری کرنے والا گروہ پکڑا گیا

کمشنر لاہور نے پی ایچ او ٹی اے کی جانب سے تیار کردہ ہسپتالوں کی فہرست کو متعلقہ اداروں کو بھیج دیا ہے تاکہ ان ہسپتالوں کا معائنہ کیا جاسکے۔

کمشنر کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ہسپتال سینئر ڈاکٹروں اور عملے کے دیگر ارکان کی ٹیمیں تشکیل دیں جو متعلقہ ہسپتالوں کے دوران انسپکشن ٹیموں کا حصہ یا اس میں مدد کرسکیں۔

اتھارٹی ارادہ رکھتی ہے کہ ٹیمیں گردے، جگر اور کورنیا کی پیوندکاری کے لیے مراکز کی رجسٹریشن اور تجدید کے لیے معائنہ کریں۔

ایک حکام کے مطابق اس معائنے کا مقصد موجودہ ہسپتالوں کی تجدید اور نئے ہسپتالوں کو رجسٹریشن دینا ہے کیونکہ پیوندکاری کی بڑھتی ہوئی طلب کے باوجود ہسپتالوں میں کم تعداد میں سرجریوں کی متعدد شکایات کے باعث مریضوں کو غیر قانونی سرجریوں کے لیے ترغیب ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شکایات خاص طور پر لاہور کے سرکاری ہسپتالوں کے متعلق ہے۔

حکام نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایچ او ٹی اے سے رجسٹرڈ ہسپتال جس میں میو ہسپتال، سروسز ہسپتال، جناح ہسپتال، لاہور جنرل ہسپتال، فیصل آباد کا الائیڈ ہسپتال اور ملتان کا نشتر ہسپتال شامل ہیں، ان ہسپتالوں نے زندگی بچانے والے اعضا کی پیوند کاری تقریباً بند کر دی تھی۔

مزید پڑھیں: عمر شریف کی بیٹی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری کرنیوالے ریکٹ کا شکار

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے نتیجے میں پنجاب میں اعضا کی پیوندکاری اور اعضا نکالنے کی غیر قانونی تجارت فروغ پا رہی ہے جو کہ حال ہی میں بے نقاب متعدد ریکٹس سے بھی ظاہر ہے۔

چنانچہ کئی دن کی سوچ و بچار کے بعد پی ایچ او ٹی اے نے لاہور کے سرکاری و نجی ہسپتالوں کو شارٹ لسٹ کیا ہے جہاں پر معائنہ کرکے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان ہسپتالوں میں گردوں، جگر اور آنکھوں کی پیوندکاری دوبارہ شروع کی جاسکے۔

اس سے قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور میں ایک بین الاقوامی گینگ کا پردہ فاش کیا تھا جو اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث تھا اور اس کے چین سے رابطے تھے۔

یہ ایجنٹس مبینہ طور پر غریب اور ضرورت مند لوگوں کو لالچ دے کر اپنے جگر اور گردے فروخت کرنے پر آمادہ کرتے تھے، جن کی پیوند کاری چین میں جاتی تھیں۔

جنوری میں پی ایچ او ٹی اے اور ایف آئی اے کی مشترکہ ٹیم نے ڈاکٹروں کے بڑے گروہ کا پتہ لگایا تھا جو خیبر پختونخوا اور پنجاب میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں