دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دراصل دہشت گردوں کو جنم دیا، وزیراعظم

13 فروری 2022
وزیراعظم عمران خان نے امریکا کو پالیسی پر نظرثانی کا مشورہ دیا— فوٹو بشکریہ سی این این
وزیراعظم عمران خان نے امریکا کو پالیسی پر نظرثانی کا مشورہ دیا— فوٹو بشکریہ سی این این

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے مزید دہشت گردوں کو جنم دیا اور اس دور میں اسلام آباد عملی طور پر ایک قلعہ تھا۔

وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار صحافی فرید زکریا کو سی این این پر ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا جہاں ان سے مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی سے متعلق اقدامات کے بارے میں پوچھا گیا۔

مزید پڑھیں: نائن الیون! دہشت گردی کے نقطہ آغاز سے سقوط کابل تک

انہوں نے کہا کہ امریکی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' نے دراصل دہشت گردوں کو جنم دیا، میں آپ کو پاکستان کی مثال سے بتا سکتا ہوں کیونکہ امریکا کی جنگ کا حصہ بننے کے بعد ہمارے 80ہزار لوگ مارے گئے، جنگ کی طوالت سے مزید دہشت گرد پیدا ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ افغانستان میں بھی ایسا ہی ہوا ہے، یہ سب رات میں مارے گئے چھاپوں اور ڈرون حملوں کی وجہ سے ہوا، امریکا کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکی شہریوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ڈرون حملے درست تھے اور دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا، دیہات میں بم پھٹ رہے ہیں، وہ صرف دہشت گردوں کو کیسے نشانہ بنائیں گے؟ اس سے کافی نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں ڈرتا ہوں، امریکہ میں عوام کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کس حد تک نقصان ہوا ہے اور ہمیں کتنا نقصان اٹھانا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو امریکا کا اتحادی سمجھا جاتا تھا اس لیے ہمیں انتقامی کارروائیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا، پورے ملک میں خودکش حملے ہوئے، ہم نے 80,000 لوگوں کو کھو دیا۔

یہ بھی پڑھیں: 9/11 حملے دنیا کو دہشت گردی سے درپیش خطرات کی یاد دلاتے ہیں، دفتر خارجہ

جب میزبان نے ان سے سوال کیا کہ اب امریکا کے دستبردار ہونے کے باوجود دہشت گردی جاری ہے تو وزیراعظم نے جواب دیا کہ اب حملے بہت کم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ دونوں صورتحال کا موازنہ نہیں کر سکتے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عروج کے زمانے میں اسلام آباد ایک قلعہ تھا، ہر جگہ خودکش حملے ہوتے تھے، پہلے جو کچھ ہوتا تھا اس کے مقابلے میں اب دہشت گردی بہت معمولی ہے۔

جنگ زدہ افغانستان کی صورتحال کے بارے میں پوچھے جانے پر وزیراعظم نے کہا کہ امریکا کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ طالبان حکومت کو ناپسند کرنا ایک چیز ہے لیکن یہ بالآخر ملک کے 4کروڑ لوگوں کے بارے میں ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان چار کروڑ میں سے نصف انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہیں، افغانستان میں موسم سرما انتہائی خطرناک اور بے رحم ہے، افغان عوام کو خوراک کی قلت کا بھی سامنا ہے اور صورتحال انسانی بحران کی طرف بڑھنے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی کے معاونین اور سہولت کاروں کو ہر قیمت پر ختم کریں گے، آرمی چیف

فرید زکریا نے وزیر اعظم عمران سے افغان طالبان سے نمٹنے کے بارے میں اپنے تجربے اور امریکا کو مشورہ دینے کے بارے میں پوچھا تو وزیراعظم نے کہا کہ اس کا حل انتخابات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا اس وقت طالبان کا کوئی متبادل موجود ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے، کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ اگر طالبان کی حکومت کو دبایا جاتا ہے تو بہتر تبدیلی آسکتی ہے؟ نہیں؟۔

ان کا مزید کہنا تھا اس وقت دستیاب واحد متبادل یہ ہے کہ اہم امور پر طالبان کے ساتھ کام اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس وقت آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا تو پڑوسی ملک انتشار کا شکار ہو سکتا ہے، ہماری لیے بہترین امید یہی ہے کہ ایک مستحکم افغانستان پاکستان میں استحکام اور امن کا سبب بنے گا جبکہ افغانستان میں امن سب کے مفاد میں ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا کو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے تو عمران خان نے کہا کہ انہیں جلد یا بدیر تسلیم کرنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا سے اسی طرح کے تعلقات چاہتے ہیں جیسے اس کے بھارت سے ہیں، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ دنیا طالبان کو تسلیم کرنے سے پہلے کچھ ضمانتیں چاہتی ہے لہٰذا اب دیکھنا ہو گا کہ امریکا طالبان کو ان کی توقعات کے مطابق ڈھالنے کے لیے کس حد تک دباؤ ڈالے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ لین دین کے تحت امور انجام دینا ہوتے ہیں، حکومت کو تسلیم نہ کرنا اور ان کے اکاؤنٹس کو منجمد کرنے سے صرف جنگ زدہ ملک کے لوگوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

انٹرویو کے دوران جب وزیراعظم عمران سے چین کی جانب سے سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنے سفیر کو سنکیانگ بھیجا تھا جس نے کہا کہ صورتحال مغربی میڈیا میں پیش کیے جانے والے حالات سے مختلف ہے۔

وزیر اعظم نے یہ بھی اجاگر کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے، گزشتہ 35 سالوں میں تقریباً ایک لاکھ کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں، 2019 میں بھارت نے یکطرفہ طور پر خطے کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہاں لوگ ماورائے عدالت قتل کیے جا رہے ہیں، کوئی حقوق نہیں اور وادی میں 8لاکھ بھارتی فوجیوں موجود ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ سنکیانگ میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کے مقابلے میں جموں و کشمیر میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کے بارے میں شاید ہی کسی غم و غصے کا اظہار کیا گیا، یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ مسئلہ کشمیر کو وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا وہ مستحق تھا۔

مزید پڑھیں: القاعدہ آئندہ چند برس میں امریکا کیلئے خطرہ بن سکتی ہے، امریکی عہدیدار

انہوں نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک سنکیانگ کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے بھی بدتر ہے؟ تو وزیراعظم نے جواب دیا کہ بالکل دونوں کا آپس میں کوئی موازنہ نہیں، کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مجرمانہ ہے۔

جب صحافی نے ان سوال کیا کہ سنکیانگ میں جو کچھ ہو رہا ہے، کیا انہوں نے اس کی مذمت کی ہے تو وزیر اعظم نے جواب دیا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ایک اور سرد جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن دنیا کو سرد جنگ جیسی صورتحال کی طرف نہیں جانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں