'ملاوی' میں پائے گئے پولیو وائرس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار نہیں دیا جاسکتا، حکام

اپ ڈیٹ 20 فروری 2022
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ملاوی میں پایا جانے والا پولیو وائرس ملک میں کم از کم چند سالوں سے گردش کر رہا ہوگا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ملاوی میں پایا جانے والا پولیو وائرس ملک میں کم از کم چند سالوں سے گردش کر رہا ہوگا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

افریقہ میں ’پولیو وائرس کا پاکستانی ویرینٹ' کہلانے والے وائرس کی نشاندہی کے ایک دن بعد وزارت صحت کے حکام نے کہا ہے کہ پاکستان میں سال 2019 سے ملک میں اس وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی کہ یہ وائرس کب اور کیسے پاکستان سے ملاوی پہنچا، جہاں ایک تین سالہ بچی کے وائرس سے متاثر ہونے کی اطلاع ملی ہے۔

یہ پیشرفت بل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے شریک بانی بل گیٹس کے اسلام آباد کے اپنے پہلے دورے کے دوران پاکستان کے پولیو پروگرام کو 'متاثر کن' قرار دینے کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو ویکسین پلانے سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں کمی کے باوجود چیلنج برقرار

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملاوی میں پایا جانے والا پولیو وائرس ملک میں کم از کم چند سالوں سے گردش کر رہا ہوگا، کیونکہ پاکستان میں 2019 سے اس وائرس کا پتہ نہیں چلا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان 2014 سے صحت کے بین الاقوامی قواعد و ضوابط پر پوری طرح عمل کر رہا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی شخص پولیو کے قطرے پیے بغیر پاکستان سے بیرون ملک سفر نہیں کر سکتا۔

ماہر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وائرس کو پاکستان سے جوڑنا بدقسمتی ہوگی کیونکہ یہ وائرس ملک سے ختم ہوچکا ہے، ان کے مطابق تین سال پہلے تک یہ قسم سندھ میں پائی جاتی تھی، اس کا مطلب ہے کہ یہ وائرس ملاوی پہنچا اور 2019 سے وہاں موجود ہے، کیونکہ 2019 کے بعد سے پاکستان میں کبھی اس وائرس کا پتہ نہیں چلا۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو اور حفاظتی ٹیکوں سے متعلق مشاورتی گروپ قیام کے بعد سے غیرفعال

ڈاکٹر ندیم جان کے مطابق وائرس کی یہ قسم 'وائی سی 2' کہلاتی ہے جس کو پہلے 'آر 4 بی 5 سی 4 سی 2' کہا جاتا تھا، ابتدائی طور پر یہ قسم سندھ کے سجاول، ٹھٹہ اور بدین کے علاقوں میں رپورٹ کی گئی تھی، جہاں سے یہ کراچی منتقل ہوا جس کے بعد یہ پاکستان سے غائب ہو گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک کیس کی نشاندہی سے پتا چلتا ہے کہ ممکنہ طور پر ملاوی میں سیکڑوں بچے متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ 200 میں سے ایک متاثرہ بچہ فالج کا شکار ہوتا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملاوی میں غذائیت، پانی اور صفائی کے مسائل کی وجہ سے قوت مدافعت میں کمی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ندیم جان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ اس میں پولیو وائرس ہے، لیکن ملاوی میں رپورٹ ہونے والی وائرس کی قسم کو پاکستان سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند سال قبل ویکسین سے حاصل ہونے والے پولیو وائرس کا تعلق بھی پاکستان سے جوڑا گیا تھا جبکہ ہمارا اس وائرس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بل گیٹس کا پہلا دورہ پاکستان، ہلال پاکستان ایوارڈ سے نواز دیا گیا

رابطہ کرنے پر وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وائرس کی اس قسم کا تعلق اس ورژن سے تھا جو کبھی پاکستان میں گردش کر رہا تھا، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ 2019 میں یہ وائرس پاکستان سے غائب ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر فیصل سلطان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ مزید تجزیے سے پتا چلے گا کہ دو سالوں سے یہ وائرس کہاں چھپا ہوا تھا، دنیا میں کم قوت مدافعت والے بہت سے مقامات اور ممالک ہوسکتے ہیں اور کمزور نگرانی کی صورت میں ایسے مقامات وائرس کے چھپنے اور وہاں موجود رہنے کے لیے بہترین ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں پاکستان میں پولیو کی نگرانی دنیا میں سب سے زیادہ سخت ہے، کیونکہ ملک پولیو کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے، لہٰذا کسی بھی کیس کے لاپتا ہونے کے امکانات ناممکن کے قریب ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: 10 فیصد سے کم شرح والے اضلاع میں پابندیوں میں نرمی

کورونا وائرس کے کیسز میں کمی

ملک بھر میں ایک دن میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں مزید کمی آئی ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق گزشتہ روز ایک دن میں ایک ہزار 983 کیسز اور 26 اموات ہوئیں۔

یہ 10 جنوری کے بعد ملک میں مثبت کیسز کی سب سے کم تعداد تھی جب ایک ہی دن می ایک ہزار 467 افراد میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی۔

قومی سطح پر مثبت کیسز کی شرح 4.15 فیصد رہی جبکہ ایک ہزار 439 مریض ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

نعمان Feb 20, 2022 03:37pm
پاکستان کے دشمن سرحدوں پر ہی نہیں ہیں ، میڈیا اور دوسرے ہتھکنڈے بھی ہیں جو پاکستان کی ذرا سی تعریف بھی برداشت نہیں کر سکتے۔