دل لاہور کے ساتھ، شائقین لاہور کے ساتھ، ٹاس بھی لاہور کے ساتھ یہاں تک کہ ہدف کے تعاقب میں بھی یہی لگ رہا تھا کہ آج لاہوری بازی لے جائیں گے۔ لیکن ملتان سلطانز نے ثابت کردیا کہ وہ دفاعی چیمپئن کہلوانے کے لائق ہیں۔

شاہنواز دھانی پر ایک بڑی کارکردگی ادھار تھی اور انہوں نے واقعی اسے ایک بڑے میچ کے لیے بچا کر رکھا تھا۔ جب 14ویں اوور میں پہلی بار شاہنواز کو گیند تھمائی گئی تو لاہور مقابلے پر چھایا ہوا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے چاروں اوورز میں وکٹیں حاصل کرکے ملتان کو ایک غیر معمولی فتح دلوائی۔

بلاشبہ اس میں دوسرے اینڈ سے ڈیوڈ ویلے اور رومان رئیس کا ساتھ بھی حاصل تھا جنہوں نے بالترتیب فخر زمان اور ڈیوڈ ویزے کی قیمتی وکٹیں حاصل کیں لیکن مقابلے کو لاہور کی گرفت سے واپس لینے کا کارنامہ شاہنواز نے انجام دیا، اور یہی وجہ ہے کہ انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔


آل پنجاب ڈربی


یہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی تاریخ میں کوالیفائر میں پہلی بار ’آل پنجاب ڈربی‘ تھی، جس میں پورے سیزن میں صرف ایک بار ناکام ہونے والے ملتان کا مقابلہ اسی ٹیم سے تھا، جس نے اسے لیگ مرحلے میں واحد شکست دی تھی یعنی لاہور قلندرز سے۔

قذافی اسٹیڈیم ایک مرتبہ پھر ’فل ہاؤس‘ تھا، جس نے لاہور کے ٹاس جیتنے کو نیک شگون جانا اور آسمان سر پر اٹھا لیا۔ شاید وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ ملتان اس سیزن میں جو ایک میچ ہارا ہے وہ بھی ہدف کے تعاقب میں تھا، یعنی پہلے کھیلتے ہوئے وہ تمام مقابلوں میں کامیاب و کامران ٹھہرا ہے۔


رضوان - روسو رفاقت


ملتان سلطانز کو بہترین آغاز میسر نہیں آیا کیونکہ دوسرے ہی اوور میں شان مسعود کی وکٹ گر گئی۔ اس کے بعد نوجوان عامر عظمت نے 22 گیندوں پر 33 رنز کی اننگ کھیلی اور کپتان محمد رضوان کے ساتھ ان کی 47 رنز کی شراکت داری رہی۔

لیکن جو ساجھے داری فیصلہ کن تھی وہ محمد رضوان اور رائیلی روسو کی تھی۔ یقین کریں جس وقت وہ کھیل رہے تھے، تب بالکل نہیں لگ رہا تھا کہ یہ میچ کا رخ بدلنے والی باریاں کھیل رہے ہیں۔ ان دونوں نے 79 گیندوں پر 113 رنز کی ناقابلِ شکست شراکت قائم کی اور اسکور کو 163 رنز تک پہنچا دیا۔


لاہور کے لیے آسان ہدف؟


اننگ کے آغاز پر میدان میں موجود تماشائی اور بہت سے حلقے 164 رنز کو ایک آسان ہدف سمجھ رہے تھے لیکن شاید وہ گزشتہ چند میچوں کے نتائج بھول چکے تھے کہ جو اسی میدان میں کھیلے گئے تھے۔

ایک تو وہ جس میں کراچی کنگز نے لاہور کو 150 رنز کے ہدف تک پہنچنے نہیں دیا تھا اور سیزن میں اپنی واحد کامیابی حاصل کی تھی۔ پھر کراچی کے خلاف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز 166 رنز بناکر بھی جیت گیا تھا بلکہ آخر میں پشاور-لاہور معرکہ تو 158 رنز تک پہنچ کر بھی ٹائی ہوگیا تھا اور سپر اوور میں چلا گیا تھا۔

اس لیے میچ پر گہری نظر رکھنے والے تو سمجھ گئے تھے کہ لاہور کے لیے معاملہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔


امید کی آخری کرن


ہدف کے تعاقب میں 10 اوورز تک، یعنی آدھی اننگ تک تو حالات اچھے نہیں تھے۔ محمد حفیظ نے خاص طور پر بہت ہی مایوس کن انداز میں اپنی وکٹ دی جبکہ اس وقت فخر زمان کو دوسرے اینڈ پر ایک سلجھے ہوئے بلے باز کی موجودگی کی ضرورت تھی۔

حفیظ کے آؤٹ ہونے کے بعد 2 اوورز بہت خاموش گزرے۔ فخر سمجھ گئے کہ اب انہیں معاملات مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لینا ہوں گے اور انہوں نے ملتان کی اصل طاقت پر وار کیا۔

اس وقت تک میچ میں اسپنرز کا راج لگ رہا تھا، کیونکہ تب تک جتنی وکٹیں گری تھیں وہ سب اسپنرز کے ہاتھوں گری تھیں۔ اس لیے فخر نے شکنجے کو توڑنے کے لیے اسپنرز ہی کو ہدف بنا لیا۔

پہلے انہوں نے عمران طاہر کی 3 گیندوں پر 3 لگاتار چھکے لگائے، اور جب یہ سب کچھ قذافی اسٹیڈیم میں ہورہا تھا تب وہاں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ پھر انہوں نے اگلے ہی اوور میں خوشدل شاہ کو بھی ایک کرارا چھکا لگا دیا۔ لاہوریوں کو اور کیا چاہیے تھا؟


اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ میں کمال اسٹریٹجی


یہاں 13 اوورز مکمل ہوگئے اور اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ لیا گیا۔ معاملات مکمل طور پر لاہور کے ہاتھوں میں نظر آتے تھے کہ جسے باقی ماندہ 7 اوورز میں 65 رنز کی ضرورت تھی۔ فخر زمان جیسے بلے باز کے ہوتے ہوئے یہ ہدف کچھ بھی نہیں تھا۔

لیکن اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ میں ملتان نے ایسی اسٹریٹجی بنائی کہ اس کے بعد لاہور کی ایک نہیں چلی۔

رضوان نے اگلا اوور شاہنواز دھانی کو پکڑایا اور وہیں سے میچ کا رخ بدل گیا۔ شاہنواز نے آتے ہی خطرناک بلے باز ہیری بروک کو آؤٹ کیا اور دوسرے اینڈ سے ڈیوڈ ویلے نے فخر زمان کو ٹھکانے لگا دیا۔ یعنی کہانی ہی ختم!

ان دونوں باؤلرز نے اپنے اگلے اوورز میں 2 مزید بلے باز آؤٹ کیے۔ ان میں سے دھانی کی سب سے خوبصورت گیند وہ تھی جس پر انہوں نے گزشتہ میچ کے ہیرو لاہوری کپتان شاہین آفریدی کو کلین بولڈ کیا۔ ایک اندر گھستی ہوئی یارکر جس نے شاہین کو کچھ کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

پھر 19ویں اوور میں رومان رئیس نے ڈیوڈ ویزے کو ایل بی ڈبلیو کرکے لاہور کا چراغ مکمل طور پر گُل کردیا۔


شاہنواز کا دن


اگر اسے شاہنواز دھانی کا دن قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ وہ اس وقت باؤلنگ کرنے آئے تھے جب میچ لاہور کی پکڑ میں تھا لیکن 4 اوورز میں صرف 19 رنز دے کر 3 قیمتی وکٹیں حاصل کرکے اور سمِت پٹیل کا ایک ناقابلِ یقین کیچ پکڑ کر شاہنواز نے میچ کو ملتان سلطانز کے حق میں جھکا دیا۔


ملتان کا مسلسل دوسرا فائنل


پچھلے سال یعنی چھٹے سیزن میں ملتان سلطانز نے اپنے ابتدائی 5 میچوں میں سے صرف ایک میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس کے بعد ایسی کایا پلٹ ہوئی کہ سیزن کے باقی 7 مقابلوں میں انہیں صرف ایک میچ میں شکست ہوئی۔

رضوان الیون نے پہلی بار پی ایس ایل ٹرافی اٹھائی اور یہی فارم انہوں نے اِس سال بھی برقرار رکھی۔ مسلسل 6 میچ جیتنے کے بعد انہیں لاہور قلندرز نے سال کا واحد دھچکا پہنچایا لیکن اس کے بعد وہ پھر لگاتار 5 مقابلے جیت چکے ہیں اور کوئی انہیں روکتا ہوا نظر نہیں آتا۔


لاہور اب بھی باہر نہیں ہوا


پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں آج تک ٹرافی نہ اٹھانے والی واحد ٹیم لاہور قلندرز ہے لیکن وہ اب بھی تاریخ کا دھارا پلٹ سکتی ہے۔ بس اسے دوسرے ایلیمنیٹر میں کامیابی حاصل کرنا ہوگی، جہاں اس کا مقابلہ پہلے ایلیمنیٹر کی کامیاب ٹیم سے ہوگا۔

پہلا ایلیمنیٹر پشاور زلمی اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے مابین کھیلا جائے گا جہاں جیتنے والے کا ایک بڑا امتحان لاہور قلندرز کی صورت میں ہوگا۔ دیکھتے ہیں وہاں لاہوریوں کی امیدیں بر آتی ہیں یا نہیں؟

ویسے لاہور ایک مرتبہ پہلے بھی فائنل کھیل چکا ہے، 2020ء میں جب اسے نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں روایتی حریف کراچی کنگز کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں