کراچی: 10 ہزار سے زائد مشتبہ افراد کی مسلسل نگرانی کا منصوبہ

اپ ڈیٹ 24 فروری 2022
پولیس چیف کا کہنا ہے کہ ای ٹیگنگ کے ذریعے جیل میں مجرموں کے تعداد کو کم کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا— فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس چیف کا کہنا ہے کہ ای ٹیگنگ کے ذریعے جیل میں مجرموں کے تعداد کو کم کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا— فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی پولیس کی کارکردگی کے سبب سندھ حکومت پر ہونے والی سخت تنقید کے بعد انہوں نے کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے کےلیے توانا کوششیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئی حکمت عملی کے تحت مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے10 ہزار سے زائد مشتبہ افراد کا تعاقب، پولیس اہلکاروں کی روزانہ کارکردگی کو جانچنے کے لیے کرائم میٹرکس کا قیام اور ڈکیتی سے لے کر قتل اور عصمت دری کے گھناؤنے جرائم کے ایک ہزار 800 سے زائد مقدمات کی کارروائی کے لیے اہل وکلا کی خدمات کا حصول یقینی بنایا جائے گا۔

صوبائی حکومت کی حکمت عملی سے آگاہ کرتے ہوئے کراچی پولیس چیف غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ ’بارہا جرائم کرنے والے اور عادی مجرموں‘ کی تعداد خاصی زیادہ ہے، ان کے لیے عدالت کے ذریعے ای ٹیگنگ کا قانون بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی اسٹریٹ کرائمز: پولیس کو رینجرز کی مدد سے کارروائی کی ہدایت

انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ عمل امریکا اور یورپ میں کیا جاتا ہے اور امریکا میں تقریبا 2 لاکھ جرائم پیشہ افراد ای ٹیگنگ کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کے ذریعے نہ صرف جائے وقوع کی معلومات حاصل کی جاسکے گی بلکہ مجرموں کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاسکیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ای ٹیگنگ کے ذریعے جیل میں مجرموں کے تعداد کو کم کرنے میں بھی مدد حاصل ہوگی۔

غلام نبی میمن نے بتایا کہ اس عمل کے ذریعے مجرموں کو متعلقہ قوانین کے تحت جیل بھیجا جاسکتا ہے۔

ایک بار ضمانت پر رہا ہونے کے بعد اس طرح کے مجرم قانون نافذ کرنے والوں کی نگرانی میں ہوں گے، ان کے طرز زندگی کی جانچ کی جائے گی اور ان کے حوالے علاقے کے معززین سے معلومات حاصل کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: کراچی میں جرائم کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات اٹھائیں گے، مراد علی شاہ

انہوں نے دہرایا کہ گزشتہ 5 سالوں میں مبینہ طور پر اسٹریٹ کرائم میں ملوث ایک لاکھ ایک ہزار 211 ملزمان یا مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، ان میں 3 ہزار 700 ملزمان اب بھی جیل میں ہیں تاہم دیگر ضمانت حاصل کر چکے ہیں یا انہیں بری کردیا گیا ۔

غلام نبی میمن نے کہا کہ ’مشتبہ افراد کی نگرانی کی جائے گی اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث پائے جانے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی‘۔

پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج کروانے میں تاخیر یا غلط الزامات کے نتیجے میں 50 فیصد ملزمان عدالت سے بری ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس ایچ اوز کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جلد از جلد ایف آئی آر درج کریں اور چارج شیٹ (چالان) صرف 'اصل مقدمات' میں پیش کریں کیونکہ اس سے ملزمان کی ضمانت کو روکنے میں مدد ملے گی اور انہیں سزا سنائی جائے گی۔

کرائم میٹرکس

کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے علاقے میں جرائم بڑھنے پر ایس ایچ اوز کو شوکاز نوٹس دینے کا سلسلہ ختم کرتے ہوئے ’کرائم میٹرکس‘ قائم کیا ہےجس سے روزانہ کی بنیاد پر افسران کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی: رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران اسٹریٹ کرائمز میں خطرناک اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ ایسے ایس ایچ اوز جو جائے وقوع کی سی سی ٹی فوٹیج حاصل کرنے، ملزمان کی نشاندہی اور اور ان کی گرفتاری یقینی بنانے میں ناکام ہوں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے دعویٰ کیا ہے احتساب کے عمل سے وہ خود بھی بری الزمہ نہیں ہوں گے۔

سزائیں

کراچی پولیس چیف نے انکشاف کیا کہ 10 سنگین زمروں کے جرائم کے ایک ہزار 823 مقدمات درج ہیں جن میں ڈکیتی و قتل، گھر ڈکیتی اور عصمت دری وغیرہ شامل ہیں ان مقدمات کے لیے سندھ حکومت نے وکلا کا ایک پینل مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائی پروفائل مقدمات کی پیروی کرتے ہوئے ملزمان کو سزا دلوانے والے وکلا کو مناسب فیس ادا کی جائےگی۔

غلام نبی میمن نے کہا کہ ان اقدامات کے علاوہ گشت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اور اسٹریٹ کرائمز سے نمٹنے کے لیے شہر میں مختلف یونٹس کے پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں