زندگی کے آخری لمحات میں دماغ کے اندر کیا ہوتا ہے؟

24 فروری 2022
یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا — شٹر اسٹاک فوٹو

سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ یہ راز جاننے کے قریب پہنچ گئے ہیں کہ زندگی کے آخری لمحات میں انسانی دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے۔

یہ دعویٰ اس وقت سامنے آیا جب طبی ماہرین نے حادثاتی طور پر ایک دم توڑتے شخص کے دماغ کی ریکارڈنگ ای ای جی استعمال کرتے ہوئے کرلی۔

جس شخص کی ریکارڈنگ ہوئی اس کی عمر 87 سال تھی اور ہارٹ اٹیک کا شکار ہوا تھا۔

یہ پہلی بار ہے جب سائنسدانوں نے دم توڑتے انسانی دماغ کی سرگرمی کو ریکارڈ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ دماغی لہروں کا جو پیٹرن اس شخص کی موت کے وقت ریکارڈ ہوا وہ خواب دیکھنے، یادیں دہرانے اور مراقبے کے دوران دماغی سرگرمیوں سے ملتا جلتا تھا۔

اس حادثاتی ریکارڈنگ کے بعد سائنسدانوں نے اس معاملے پر ایک تحقیق کی جس کے نتائج طبی جریدے فرنٹیئرز ان ایجنگ نیوروسائنس میں شائع ہوئے۔

امریکا کی لوئی ویل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر ہمارا دماغ زندگی کے آخری لمحات بلکہ موت کے بعد بھی متحرک ہوسکتا ہے۔

اسی طرح جس طرح کی دماغی لہروں کو دم توڑتے دماغ سے ریکارڈ کیا گیا، ان سے عندیہ ملتا ہے کہ آخری لمحات میں لوگ اپنی زندگی کو آنکھوں کے سامنے سے گزرتے دیکھتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ ہم نے موت کے وقت کی 900 سیکنڈ کی دماغی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کی اور اس پر توجہ مرکوز کی کہ دل کی دھڑکن رکنے سے 30 سیکنڈ پہلے اور 30 سیکنڈ بعد دماغ پر کیا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دل کی دھڑکن رکنے سے کچھ لمحے قبل اور کچھ لمحوں کے بعد ہم نے مختلف دماغی لہروں میں تبدیلیوں کو دیکھا، اس طرح کی لہریں یادوں کو دہرانے کے عمل کا حصہ ہوتی ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ آخری لمحات میں دماغ زندگی کے اہم واقعات کو کسی فاسٹ فارورڈ فوٹیج کی طرح پلے کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دریافت زندگی کے اختتام کے بارے میں ہماری سمجھ کو چیلنج کرتی ہے۔

یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق تھی جو ایک کیس پر مبنی تھی مگر محققین کو توقع ہے کہ وہ اس کام کو مزید آگے بڑھا سکیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ نتائج سے ماہرین کو آخری لمحات میں زندگی کو دوبارہ دہرانے کے عمل کو زیادہ بہر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملے گی جس کو موت کے منہ سے نکل آنے والے افراد بھی رپورٹ کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں