نوزائیدہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا کیوں ضروری ہیں؟

28 فروری 2022
توزائیدہ بچوں کو پولیو وائرس سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ تصویر:یونیسیف
توزائیدہ بچوں کو پولیو وائرس سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ تصویر:یونیسیف

یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ گزشتہ 12 ماہ سے زائد کے عرصے میں پاکستان میں پولیو کا صرف ایک کیس 27 جنوری 2021 کو رپورٹ ہوا تھا، کسی بھی ملک کو پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے لگا تار تین سال تک پولیو سے پاک ہونا ضروری ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے 12 ماہ بھی ایک طویل وقت ہے جہاں آج کی تاریخ تک لوگوں میں پولیو کے قطروں کے حوالے سے خدشات اور تحفظات موجود ہیں۔

چند ماہ قبل یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عمر عابدی نے کہا تھا کہ پاکستان میں پولیو وائرس کا صرف ایک کیس رپورٹ ہونے کے بعد آرگنائزیشن کو اُمید ہے کہ ملک میں پولیو وائرس کا خاتمہ ہونے والا ہے، ہم گزشتہ 20 سال سے اس حوالے سے سامنے آنے والے رجحانات کی نگرانی کر رہے ہیں، اس سے قبل ہم متعدد مرتبہ اس کے قریب آئے لیکن اب ہم خاتمے کے قریب ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان میں پولیو کی ویکسین مستقل پہنچتی رہی ہے جس کے نتیجے میں پولیو کے کیسز کم ہوئے ہیں جبکہ سیوریج سے حاصل کیے جانے والے نمونوں میں بھی وائرس کی انتہائی کم مثبت شرح سامنے آرہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان پولیو سے پاک ہونے والا اگلا ملک بن سکتا ہے، عالمی ادارہ صحت

پولیو کے خلاف تازہ مہم کے دوران پورے ملک کے 156 اضلاع میں تقریبا ساڑھے 3 لاکھ رضا کار پانچ سال سے کم عمر کے 4 کروڑ 30 لاکھ سے زائد بچوں کو انسداد پولیو ویکسین کے قطرے پلانے کی مہم کا حصہ ہیں۔

بچہ جتنا چھوٹا، پولیو وائرس کیلئے اتنا ہی آسان شکار

پولیو وائرس بچے کے جسم پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کو عمر بھر کے لئے معذور بنا دیتا ہے، یہاں تک کہ اس کی جان بھی لے سکتا ہے۔ بدقسمتی سے اس مرض کا کوئی علاج موجود نہیں ہے تاہم آپ کے بچے کو اس مہلک ترین وائرس سے بچانے کے لئے پولیو ویکسین کے قطرے موجود ہیں۔

پولیو کے قطرے ایک حفاظتی شیلڈ کی طرح ہوتے ہیں، اگر آپ اپنے بچے اور پولیو وائرس کے درمیان مضبوط دیوار کھڑی کرنے کے خواہش مند ہیں، تو آپ کو مضبوط و مستحکم شیلڈ درکار ہوگی، اور اس کے لیے اپنے بچے کو ہر بار قطرے پلوانا ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ پولیو رضا کار ہر مہم میں آپ کے گھر آتے ہیں اور آپ کے بچوں کو قطر پلاتے ہیں، آپ کا بچہ جتنی زیادہ خوراکیں حاصل کرے گا، بچے اور اس بیماری کے درمیان حائل دیوار اتنی ہی زیادہ محفوظ ہوگی۔

پاکستان کے اکثر دیہات، دور دراز علاقوں خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں والدین اپنے نوزائیدہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے ہچکچاتے ہیں، انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اس سے بچے پر مضر اثرات مرتب ہوں گے جبکہ والدین لڑکیوں کے مقابلے میں نوزائیدہ لڑکوں کے حوالے سے بہت زیادہ خدشات شکار ہوتے ہیں، بیٹے اور بیٹی کے امتیاز پر مشتمل فرسودہ سوچ کے باعث اکثر والدین اپنے بیٹوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکاری ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو ویکسین کی کہانی: اس میں ایسا کیا ہے جو ہر سال 30 لاکھ زندگیاں بچاتی ہے

دنیا کے تمام ماہرین اطفال اس بات پر متفق ہیں کہ بچہ جتنا چھوٹا ہوگا وہ اتنی ہی آسانی سے پولیو وائرس کا شکار بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے معروف ماہرِ امراضِ اطفال، صدر ایشیا پیسفک پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن پروفیسر اقبال میمن کہتے ہیں کہ بچوں کی پیدائش کے فوری بعد انہیں او پی وی (منہ کے ذریعے قطرے) فراہم کی جانی چاہیے، اسے ڈوز زیرو (صفر) کہا جاتا ہے، جس کے بعد 6، 10 اور 14 ہفتوں کے بعد ویکسین دی جاتی ہے، بعد ازاں انہیں ہر مرتبہ سلسلہ وار مہمات کے دوران ویکسین فراہم کی جاسکتی ہے'۔

پروفیسر اقبال میمن نے والدین کو مکمل اطمینان دلاتے ہوئے کہا کہ والدین اس بات کی مکمل تسلی کرلیں کہ نومولود کو پلائے جانے والے پولیو کے قطروں کے کسی قسم کی مضر اثرات اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ یہ قطرے ان کے بچوں کی صحت کیلئے مفید اور دیگر بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بھی پیدا کرتے ہیں۔

ماہرین صحت نوزائیدہ بچوں سے لے کر پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو بار بار پولیو کے قطرے پلانے پر زور دیتے ہیں۔

ماہرین صحت کے مطابق بچے کو پولیو سے بچانے کے لئے اورل پولیو ویکسین (OPV) متعدد بار پلوانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے کو پولیو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لئے کتنی خوراکیں درکار ہیں، بچے کی اپنی صحت، جسم میں کسی قسم کی غذائی کمی کے ہونے یا نہ ہونے کے علاوہ اس بات پربھی منحصر ہوتا ہے کہ مزید کتنے دیگر وائرس ایسے ہیں جن کے خطرے سے بچہ دوچار ہے۔

پانچ سال کی عمر تک بچے کو پولیو لاحق ہونے کا خطرہ برقرار رہتا ہے، اسی خطرے کے پیش نظر ہر انسداد پولیو مہم کے دوران تمام بچوں کو قطرے ضرور پلانے چاہئیں، ہر وہ بچہ جسے انسداد پولیو ویکسین کے قطرے نہیں پلائے گئے وہ اس مہلک وائرس کی افزائش اور پھیلاؤکی وجہ بن سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کورونا سے نمٹ سکتا ہے تو پولیو سے کیوں نہیں

ماہرین کے مطابق صرف ایک بار ویکسین لینے سے بچہ معذور ہونے یا پولیو وائرس سے متاثر ہونے سے بالکل محفوظ نہیں ہوسکتا کیونکہ لاکھوں مختلف اقسام کے وائرس بچوں کی آنتوں کو متاثر کرسکتے ہیں اور اس کے ساتھ خطرناک بات یہ بھی ہے کہ ساتھ ہی متاثرہ بچہ دیگر بچوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہر بار منہ کے ذریعے پلائے جانے والے پولیو سے بچاؤ کے قطرے بچوں کو دئیے جائیں۔

ماہرین صحت یہ بات انتہائی وثوق سے کہتے ہیں اور اس کی مثالیں بھی پوری دنیا میں موجود ہیں کہ جو بچہ انسداد پولیو ویکسین کے قطرے پیتا ہے اس کا مدافعتی نظام بھی طاقتور ہوجاتا ہے، منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین بچے کی آنت کے اس حصے کو بند کردیتی ہے جو کسی بھی باہر کی چیز کو وصول کرکے اسے جسم میں آگے منتقل کردیتا ہے اور ساتھ ہی وہ ’وائلڈ پولیو وائرس‘ (ڈبلیو پی وی) کو بھی بلاک کردیتی ہے اور بچہ مزید معذور ہونے سے بچ جاتا ہے،یہ پولیو کے قطرے نہ صرف آنتوں اور خون میں موجود خلیات کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ یہ بچوں کو آنے والے وقت میں پولیو وائرس سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔

اس لیےکوئی بچہ انسداد پولیو کے قطرے جتنی بار پیے گا اتنا ہی اس کا مدافعتی نظام توانا ہوگا۔


پولیو ٹیم کی جانب سے کسی بھی بچے کو پولیو کے قطرے نہ دیے جانے یا پولیو سے متعلق مزید معلومات کے لیے 1166 پر کال کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں