سوئی سدرن کےخلاف غیر برآمدی صنعتوں کی درخواستیں خارج

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2022
سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 158 کا مقصد صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان گیس سے متعلق مسئلے کو حل کرنا ہے—فائل فوٹو:وکی میڈیاکامنز
سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ آرٹیکل 158 کا مقصد صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان گیس سے متعلق مسئلے کو حل کرنا ہے—فائل فوٹو:وکی میڈیاکامنز

سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کی جانب سے غیر برآمدی صنعتوں کو قدرتی گیس کی فراہمی منقطع کرنے کے خلاف دائر درخواستیں خارج کردیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عدنان اقبال چوہدری پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے ریمارکس دیے کہ ایس ایس جی سی کی جانب سے گیس کی بندش کے لیے 10 دسمبر 2021 کو جاری کردہ نوٹس میں 22-2021 کے موسم سرما کے لیے دیے گئے گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔

35 سے زائد کمپنیوں کی جانب سے مقدمہ دائر کیا تھا اور ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ مدعا علیہان کراچی اور سندھ کے دیگر حصوں میں موجود جنرل، غیر برآمدی صنعتوں کے سربراہ ہیں۔

انہوں نے 11 دسمبر سے تمام عام صنعتوں (نان ایکسپورٹ بشمول کیپٹیو پاور یونٹس) کو تاحکم ثانی گیس کی فراہمی مکمل طور پر روکنے کے ایس ایس جی سی کے نوٹس کو چیلنج کیا اور دلیل میں آرٹیکل 158 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سندھ سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا صوبہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:دیگر صوبوں کو دینے کی وجہ سے سندھ کو 15 فیصد کم گیس فراہم کیے جانے کا انکشاف

کچھ درخواست گزاروں نے حکومت کے اس ترجیحی آرڈر پر بھی سوال اٹھایا جس کے تحت وفاقی وزارت پیٹرولیم نے نظر ثانی کرتے ہوئے 2018 میں عام صنعتوں کو ترجیحی فہرست میں نمبر 3 پر رکھا تھا۔

درخواست گزاروں کے وکلا، مدعا علیہان کے وکیل اور وفاق کے قانونی افسر کے دلائل سننے کے بعد بینچ نے تمام درخواستوں کو خارج کردیا اور اپنے حکم میں کہا کہ ایس ایس جی سی کو دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں 246 ایم ایم سی ایف ڈی اور 276 ایم ایم سی ایف ڈی کی کمی کا سامنا کرنا تھا۔

عدالت نے کہا کہ مدعی کی یہ دلیل کہ گھریلو صارفین کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ایس ایس جی سی کے سسٹم میں کافی گیس موجود ہے عدالت میں پیش کیے گئے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اعداد و شمار سے متصادم ہے۔

مزید پڑھیں:گیس کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، معاون خصوصی

سندھ ہائی کورٹ کے حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ مدعا علیہان کے وکیل نے اپنے دلائل میں یہ بھی نشاندہی کی کہ اگر سسٹم میں وافر مقدار میں گیس موجود ہوتی تو ایس ایس جی سی کے پاس اسے عام صنعتی (نان ایکسپورٹ) سیکٹر سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی جنہیں وہ گھریلو صارفین سے کہیں زیادہ منافع بخش قیمت دیتے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 158 کے بارے میں جس میں گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو فوقیت دی گئی ہے اس سے متعلق بینچ کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد ایسے صوبوں اور وفاقی حکومت کے درمیان کسی مسئلے کو حل کیا جانا چاہیے۔

عدالت کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ صوبائی حکومت کا استحقاق ہے اور متعلقہ صوبائی حکومت کے علاوہ کوئی اور شخص اس حوالے سے درخواست دائر نہیں کرسکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں