یہ 24 سال بعد پاک سرزمین پر آسٹریلیا کا پہلا ٹیسٹ تھا۔ جذبات عروج پر، جوش و خروش بھرپور اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ اس سیریز کا آغاز ہوا تو پہلے دن ہی پیشانیوں پر بل پڑنا شروع ہوگئے، کیونکہ دن کے اختتام پر پاکستان کا اسکور تھا صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 245 رنز۔

جو کسر رہ گئی تھی وہ اگلے دن پوری ہوئی کہ جس میں پاکستان نے اپنی اننگ 476 رنز پر ڈکلیئر کی، وہ بھی صرف 4 وکٹوں کے نقصان پر۔ یعنی 2 دن کی دوڑ دھوپ کے بعد آسٹریلیا کو صرف 4 وکٹیں ملیں، ان میں سے بھی ایک رن آؤٹ تھا۔ ایسا ’سواگت‘ شاید ہی کسی کا ہوا ہو۔

پھر پاکستانی باؤلرز کا امتحان شروع ہوا، جو اگرچہ آسٹریلیا جتنا کڑا تو نہیں تھا مگر پھر بھی آسٹریلیا کو آل آؤٹ کرنے کے لیے انہیں 140 اوورز کی کڑی جدوجہد کرنی پڑی۔

آسٹریلیا کے زخموں پر نمک اس طرح چھڑکا گیا کہ آخری دن پاکستان نے اپنی دوسری اننگ میں بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے مزید 252 رنز بنا لیے یعنی پورے میچ میں 728 رنز دے کر آسٹریلیا کو صرف 4 وکٹیں ملیں۔

میچ کا نتیجہ تو نہیں نکلنا تھا، نہ نکلا لیکن راولپنڈی کی پچ پر بہت بڑے سوالات ضرور کھڑے ہوگئے۔ ایک ایسے سال میں جہاں صرف ایک میچ ڈرا ہوا ہے، وہ بھی انگلینڈ اور آسٹریلیا کا سڈنی ٹیسٹ، جس نے سنسنی خیزی میں ون ڈے اور ٹی20 کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ وہاں پر ایک ایسی وکٹ پر میچ اتنی بُری طرح ڈرا ہونے کا مطلب تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ کیونکہ یہ سب اس میدان پر ہوا کہ جسے پاکستان میں باؤلرز کے لیے سب سے مددگار پچ سمجھا جاتا ہے۔

صدی کی بدترین پچ؟

تنقید کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ کسی نے اسے ’صدی کی بدترین پچ‘ کی سرخی جمائی تو کسی نے کہا کہ اس نے تو فیصل آباد کو بھی شرما دیا ہوگا جبکہ کسی نے اسے باؤلرز کا قبرستان قرار دیا۔ لیکن تب تک معاملہ محض میڈیا اور سوشل میڈیا پر تھا۔ مگر جب چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) رمیز راجا نے بیان جاری کیا تو گویا بند ٹوٹ گیا۔ ان کے الفاظ سے واضح طور پر پتہ چلا کہ پنڈی کی پچ ’غلطی‘ سے نہیں بن گئی تھی، بلکہ جان بوجھ کر ایسی بنائی گئی تھی تاکہ آسٹریلیا کی باؤلنگ لائن کو حاصل برتری کو ختم کیا جاسکے۔

اس بیان نے تو جلتی پر تیل کا کام کردیا اور کرنا بھی چاہیے تھا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے اسے ’اوسط سے کم درجے‘ کی پچ قرار دیتے ہوئے ایک ڈی میرٹ (demerit) پوائنٹ دے دیا ہے۔

یہ ڈی میرٹ پوائنٹ کیا بلا ہے؟

اب یہ ڈی میرٹ پوائنٹ کیا بلا ہے؟ دراصل آئی سی سی نے پچ اور آؤٹ فیلڈ کی حالت کے حوالے سے کچھ قوانین مرتب کر رکھے ہیں۔ اگر کوئی پچ ’اوسط سے کم درجے‘ کی ہو تو اسے ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دیا جاتا ہے۔ اگر کسی میدان کے ان پوائنٹس کی تعداد 5 ہوجائے تو اس پر پابندی لگا دی جاتی ہے کہ وہ ایک سال تک کسی انٹرنیشنل میچ کی میزبانی نہیں کرسکے گا۔ اگر ان پوائنٹس کی تعداد 10 ہوجائے تو یہ پابندی 2 سال ہوجاتی ہے۔

اگر آئی سی سی کا میچ ریفری پچ کو ’ناقص‘ اور ’ناموزوں' قرار دے تو براہِ راست 5 ڈی میرٹ پوائنٹس کا جرمانہ پڑجاتا ہے یعنی ایک سال کی پابندی پکّی۔

یوں ایک ایسا مقابلہ، جس کے لیے دن گنے جا رہے تھے، اس کا اختتام اس مایوس کن انداز میں ہوا۔ یہ معاملہ نہ صرف راولپنڈی کے لیے افسوس کی وجہ بنا بلکہ پورے پاکستان کے لیے بھی کیونکہ یہ ملک کا پہلا میدان ہے جسے آئی سی سی نے پچ کی وجہ سے ڈی میرٹ پوائنٹ دیا ہے، وہ بھی ایک ایسی سیریز کے پہلے میچ میں جو 24 سال بعد ہو رہی ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ ڈی میرٹ پوائنٹ اس پچ کو ملا ہے، جسے پاکستان میں باؤلرز کی جنت سمجھا جاتا تھا۔ یہی وہ وکٹ ہے جہاں محمد زاہد نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں 11 وکٹیں لی تھیں، بلکہ ابھی پچھلے سال ہی جنوبی افریقہ کے خلاف حسن علی نے 10 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

پاکستان، اب خود اپنے بچھائے گئے جال میں

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آسٹریلیا کے لیے بچھائے گئے جال میں اب خود پھنس چکا ہے۔ کم از کم چیئرمین صاحب کے بیان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے ایسا جان بوجھ کر کیا تھا۔

بہرحال، پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا سے کہیں بہتر کارکردگی دکھانے کے باوجود اب دباؤ اُلٹا پاکستان پر ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ میچ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے اور مین آف دی میچ قرار پانے والے امام الحق وضاحتیں کرتے پھر رہے ہیں کہ پچ بنانے والا میرا رشتہ دار نہیں تھا یا میں نے اس کو نہیں کہا تھا کہ ایسی وکٹ بناؤ۔

منفی تدابیر سے اجتناب ضروری

یاد رکھیں کہ منفی تدابیر سے کبھی کسی کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ کراچی کا نیشنل اسٹیڈیم پاکستان کا قلعہ رہا ہے۔ پاکستان 45 سال تک یہاں ناقابلِ شکست رہا اور کوئی مائی کا لعل اس میدان پر پاکستان کو شکست نہیں دے پایا۔ لیکن 2000ء میں انگلینڈ کے خلاف تمام تر منفی حربے استعمال کرنے کے باوجود پاکستان میچ نہیں بچا پایا۔

پاکستان سمجھتا رہا کہ وہ میچ کو سست روی سے چلائے گا تو روشنی کم ہوتے ہی مقابلہ ختم کردیا جائے گا لیکن انگلینڈ والوں نے امپائر کی ہر قسم کی پیشکش کو مسترد کردیا اور بالآخر مغرب کی اذانوں کے ساتھ ایک تاریخی کامیابی حاصل کرلی۔ اس میچ میں معین خان الیون کے منفی حربے کسی کام نہ آئے بلکہ اسپورٹس مین شپ نہ دکھانے پر الٹا سخت تنقید کا نشانہ بنے۔

بہرحال، اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سیریز کے اگلے میچوں میں اس کی تلافی کے لیے کوئی ایسی وکٹ بنائی گئی تو کیا ہوگا؟ اب سب کی نظریں کراچی ٹیسٹ پر ہیں، بلکہ یہ کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کراچی کی پچ پر ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!

تبصرے (1) بند ہیں

Ibrahim Saeed Mar 14, 2022 09:30am
Aap September mai aai hain, aap se pehle PCB Chairman k beghair tha Will anyone be made accountable??