تحریک عدم اعتماد: پی ٹی آئی کی کوششوں کے باجود ایم کیو ایم کا ’آپشنز‘ کھلے رکھنے پر زور

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2022
خالد مقبول صدیقی کا کہناتھا کہ ہمیں اپنی پارٹی اور قوم کے مفاد کے لیے فیصلہ کرنا ہے— فوٹو: ڈان نیوز
خالد مقبول صدیقی کا کہناتھا کہ ہمیں اپنی پارٹی اور قوم کے مفاد کے لیے فیصلہ کرنا ہے— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر مرکز میں موجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے بارہا اپنے اتحادیوں کی اعتماد جیتنے کی کوشش کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے کارڈز چھپا کر رکھے ہوئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ تمام پارلیمانی ’آپشنز‘ موجود ہیں، وہ صرف قوم اور جماعت کے مفاد میں فیصلہ کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایم کیو ایم کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی نئی کوشش گزشتہ روز سامنے آئی جب گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے اپنے معاونین کے ہمراہ ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآبادکا دورہ کیا۔ ایک گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں فریقین کی جانب سے مثبت انداز ظاہر کیا، تاہم اشارہ ملتا ہے کہ دونوں جماعتوں کی گفتگو کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا دورہ کراچی،ایم کیو ایم رہنماؤں سے تحریک عدم اعتماد پر تبادلہ خیال

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ ’میں یہاں ایم کیو ایم پاکستان کو وزیر اعظم عمران خان کا پیغام دینے آیا ہوں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ایم کیو ایم پاکستان سے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر حمایت کی درخواست کی ہے، اگر ہم وفاقی حکومت میں موجود اپنے اتحادیوں کی حمایت حاصل کر لیتے ہیں تو ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے حکومت کی حمایت کی ہے، اور یہ اس لیے ہمیں امید ہے کہ وہ یہ رویہ اختیار کرتے ہوئے عمران خان کی حمایت جاری رکھیں گے۔

گورنر سندھ کا نے کہا کہ میں یہ بات واضح کردوں کہ چاہے اتحادی ہوں یا نہ ہوں، میں نے غور کیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان بلا تعصب اور اخلاص کے ساتھ گزشتہ تین برسوں سے شہر اور صوبے کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی(ف) ضمانت دیں تو اپوزیشن کا ساتھ دے سکتے ہیں، وسیم اختر

جب ایم کیو ایم رہنما خالد مقبول صدیقی سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق پارٹی کا فیصلہ پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنی پارٹی اور قوم کے مفاد میں فیصلہ کرنا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم ایک جمہوری جماعت ہے اور ہماری پرانی روایت ہے کہ ہم کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے کارکنان کی رائے ضرور لیتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ اب تک ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور اسی لیے حکومت برقرار ہے، ہمارا ماننا ہے کہ تمام تر حالات کا جو نتیجہ حاصل ہوگا اس سےجمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہے‘۔

جب ان سے پی ٹی آئی حکومت پر بڑھتے دباؤ اور مسلم لیگ (ق) کی جانب سے اپوزیشن کے حق میں ممکنہ فیصلے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ پارٹی دوسروں کے فیصلے کی پیروی کرنے کی پابند نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر مسلم لیگ (ق) اپنا فیصلہ لینے میں آزاد ہے تو ہم بھی آزاد ہیں اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم پاکستان کو ویسی سیاسی اسپیس حاصل نہیں جیسی اپوزیشن کو ہے اس لیے ہر ایک کا اپنا معاملہ اور اپنی صورتحال ہے جسے وہ مدِ نظر رکھیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں