لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے سب سے بڑے فین شاید وہ خود ہیں۔ وہ اور ان کے حامی یہی سمجھتے ہیں کہ 5 میں سے 4 ریاستوں کے انتخابات میں حاصل ہونے والی فتح دراصل 2024ء کے قومی انتخابات کے نتیجے کا عکس ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ درست بھی ہوں کیونکہ وہ اکثر درست ہوتے ہیں لیکن غلط وجوہات کی بنا پر۔

اگر اس خیال کو دوسری طرح سے سوچیں تو مودی غلط بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اتر پردیش، اترا کھنڈ، گوا اور منی پور میں بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی فتح حزبِ اختلاف کے لیے اتنی ہی حیران کن تھی جتنی مودی کے حامیوں کے لیے زبردست۔ تاہم بی جے پی کے حامیان ہمیں اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ پنجاب میں نسبتاً نئی جماعت عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں بی جے پی کی شکست کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ شاید یہ مستقبل کی جھلک ہو۔

مزید پڑھیے: ہندوتوا کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

بی جے پی کے بہت سے ناقد اپنی عادت سے مجبور ہوکر جذباتی انداز اختیار کرگئے اور اپوزیشن کی ناکامی کی وجہ گاندھی خاندان کو قرار دینے لگے۔ جواباً گاندھی خاندان نے پارٹی چھوڑنے کی پیشکش کردی۔ سونیا گاندھی نے کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کے ارکان سے کہا کہ ’میرے لیے انڈین نیشنل کانگریس بہت اہم ہے۔ ہم کوئی بھی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ گاندھی خاندان پارٹی کو چلا نہیں سکتا تو ہم تینوں پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں‘۔

خبروں کے مطابق پارٹی کی سی ڈبلیو سی نے متفقہ طور پر اس تجویز کو مسترد کردیا اور سب نے گاندھی خاندان کے پارٹی میں رہنے کی ضرورت کا اظہار کیا۔ ان میں غلام نبی آزاد بھی شامل تھے جو اس دھڑے کی قیادت کررہے تھے جس نے پارٹی قیادت پر تنقید کی تھی اور جنہوں نے حال ہی میں متنازع طور پر نریندر مودی سے پدما بھوشن ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی آپ کی قیادت پر سوال نہیں اٹھایا، ہم نے صرف پارٹی کے انتظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی ہے‘۔

ان حالات کی وجہ یہ ہے کہ گاندھی خاندان نے خود کو ان کاروباری افراد سے دُور رکھا جو میڈیا اور کچھ لوگوں کے بقول حکومت کے بھی کرتا دھرتا ہیں۔ من موہن سنگھ کے دورِ حکومت میں بھی سونیا گاندھی معروف ایکٹوسٹس پر مشتمل نگرانی رکھنے والا ایک گروہ چلاتی تھیں تاکہ کانگریس کی مارکیٹ دوست پالیسیوں کے منفی اثرات کو کم کیا جاسکے۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ پالیسیاں اس ہم آہنگ بھارت پر پورا نہیں اترتیں جس کا تصور اس کے بانیان نے پیش کیا تھا۔

تو جب نریندر مودی کانگریس فری بھارت کا نعرہ لگاتے ہیں تو وہ دراصل مائنس گاندھی کانگریس کا پرچار کررہے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی بی جے پی پہلے ہی کانگریس کے تمام بڑے رہنماؤں بشمول مہاتما گاندھی، سردار پٹیل اور سبھاش چندر بوس کو خود میں ضم کرچکی ہے۔

مزید پڑھیے: ہندو راشٹریہ کے نمائندے مودی بھارت کو یہ نقصان کیوں پہنچا رہے ہیں؟

گاندھی خاندان پر ہونے والی تنقید کے پیچھے اس بات کا خوف ہے کہ ان کی نگرانی میں سرمایہ دارانہ نظام کو زد پہنچ سکتی ہے۔ یہ ایک ایسا امکان ہے جس کا اظہار حالیہ برسوں میں راہول گاندھی بھی کرچکے ہیں۔ اب تک 3 سیاستدان ان بڑے کاروباری افراد پر تنقید کرچکے ہیں جو بڑی حد تک اپنا کنٹرول رکھتے ہیں۔ اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ میڈیا ان تینوں کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ دیگر 2 سیاستدانوں میں نوجوت سنگھ سدھو اور اروند کیجریوال شامل ہیں جو بڑے کاروباری اداروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ باری باری ان تینوں کو ملک دشمن کہا جاچکا ہے۔

ذرا تاریخ میں پیچھے چلتے ہیں جب سونیا گاندھی کوئی الیکشن ہاری نہیں تھیں اور وہ واقعی انتخابات میں فتح حاصل کرتی تھیں۔ اس وقت بھی ان کی غیر ملکی پیدائش کے خلاف مظاہرے جاری تھے۔ بلاشبہ یہ مظاہرے سرمایہ کاروں کی ایما پر ہی ہورہے تھے۔ اس وقت بھی بی جے پی کی 2 خواتین رہنماؤں نے دھمکی دی تھی کہ اگر سونیا گاندھی اقتدار کے قریب بھی آئیں تو وہ اپنے سر منڈوالیں گی۔ اس طرح دشمنی کی بنیاد ان کی فتح اور شکست نہیں رہی۔

پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کارکردگی کی وجہ بھی بدعنوانی کے خلاف ان کی مہم اور حکومت میں کاروباری اداروں اور افراد کے مفادات پر کڑی نظر رکھنا تھا۔ صوبے کے کسانوں نے جب ایک سال تک زرعی قوانین [جو اب منسوخ ہوچکے ہیں] کے خلاف احتجاج کیا تو انہوں نے بھی تقریباً یہی کام کیا تھا۔ یوں انہوں نے عام آدمی پارٹی کا ساتھ دیا۔

اتر پردیش میں بی جے پی کی فتح کو سمجھنے کے لیے نتائج پر غور کرنا ہوگا۔ بزنس اسٹینڈرڈ سے منسلک ایشان جیرا نے اس حوالے سے کچھ مفید تفصیلات جمع کی ہیں۔ ان تفصیلات کے مطابق اتر پردیش، گوا اور منی پور میں فتح کی دوڑ ماضی کی نسبت زیادہ سخت رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین جیسی چھوٹی جماعتیں بھی خاص طور پر اترپردیش میں اہمیت حاصل کرچکی ہیں، مگر انتشار کا شکار اپوزیشن کچھ نہ کرسکی۔

گوا میں ممتا بینرجی کی تری نمول کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے کانگریس کی جیت کے تمام امکانات ختم کردیے۔ یہ دونوں پُرعزم علاقائی جماعتیں ہیں اور آج سے 2 سال بعد جب عام انتخابات ہوں گے تو یہ کانگریس کے قائدانہ کردار کے خلاف ہوں گی۔ گانگریس کو چاہیے کہ اس بحران پر سنجیدگی سے غور کرے۔ اگر سونیا گاندھی اپنی جماعت کی قیادت سے پیچھے ہٹنے کے بجائے اپنی جماعت کو ایک قدم پیچھے ہٹا لیں اور بی جے پی کو شکست دینے کے قابل اتحاد کی قیادت کی بجائے پیچھے رہ کر اس اتحاد کی رہنمائی کریں تو شاید لوگ ان کے احسان مند رہیں۔

ایشان جیرا کے مرتب کردہ نتائج پر غور کریں تو گوا، منی پور اور اتر پردیش میں جیت کا اوسط فرق 2017ء کی نسبت واضح طور پر کم ہوا ہے۔ گوا میں 2022ء میں جیت کا اوسط فرق ایک ہزار 991 ہے جبکہ 2017ء میں یہ 3 ہزار 946 تھا۔ ماضی کی نسبت اس مرتبہ 10 نشستیں اہک ہزار ووٹوں کے کم فرق سے جبکہ 6 نشستیں 500 ووٹوں کے کم فرق سے جیتی گئیں جو ماضی کے مقابلے میں کم ہیں۔

منی پور میں ایک ہزار ووٹوں سے کم کے فرق سے جیتنے والے امیدواروں کی تعداد 22 جبکہ 500 ووٹوں سے کم کے فرق سے جیتنے والے امیدواروں کی تعداد 10 ہے، یہ بھی 2017ء کی نسبت کم تعداد ہے۔

مزیدپڑھیے: اپوزیشن متحد ہوگئی تو مودی حکومت کو چھپنے کی جگہ بھی شاید نہ ملے

اترا کھنڈ کی بات کی جائے تو وہاں جیت کے اوسط فرق میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ وہاں یہ فرق 6 ہزار 717 سے بڑھ کر 7 ہزار 333 ہوگیا ہے۔ سیٹوں کی بات کی جائے تو ماضی کی طرح 500 ووٹوں سے کم کے فرق سے جیتنے والے امیدواروں کی تعداد 2 اور ایک ہزار ووٹوں سے کم کے فرق سے جیتنے والے امیدواروں کی تعداد 5 ہے۔

پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں کم فرق سے جیتی گئی سیٹوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

اترپردیش، اتراکھنڈ اور پنجاب میں سرِفہرست رہنے والی 2 جماعتوں کے ووٹوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اترپردیش میں 2 سرِفہرست پارٹیوں کے ووٹوں کی شرح 2017ء میں 61.9 سے بڑھ کر 2022ء میں 73.4 فیصد ہوگئی ہے اور اس میں سماج وادی پارٹی آگے ہے۔

2018ء میں دی وائر نے حساب لگایا تھا کہ بھارت کی کل 4139 نشستوں میں سے بی جے پی کے پاس صرف 1516 نشستیں ہیں۔ ان میں سے بھی 950 نشستیں 6 ریاستوں گجرات، مہاراشٹرا، کرناٹکا، اترپردیش، مدھیا پردیش اور راجستھان سے ہیں۔ یوں 2024ء کے انتخابات میں نریندر مودی کے اعلان فتح کی حمایت میں کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے تو وہ یہ کہ انہیں حالیہ انتخابات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔


یہ مضمون 15 مارچ 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں