کووڈ سے معمولی بیمار افراد میں طویل المعیاد علامات کی ممکنہ وجہ سامنے آگئی

15 مارچ 2022
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کی گئی — شٹر اسٹاک فوٹو

ابھی یہ اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہوسکا ہے کہ آخر کیوں کچھ لوگ کووڈ 19 کی معمولی شدت سے متاثر ہونے کے بعد بھی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرتے ہیں۔

مگر اب ایک نئی تحقیق میں ان طویل المعیاد علامات یا لانگ کووڈ کی ایک ممکنہ وجہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

درحقیقت ایک مخصوص قسم کے مدافعتی خلیات میکروفیجز اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں۔

یہ بات سوئیڈن اور جرمنی کی مشترکہ طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

سوئیڈن کے کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور جرمنی کے ہیلمولٹز سینٹر میونخ اور ٹیکنیکل یونیورسٹی آف میونخ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مدافعتی خلیات کووڈ کی معمولی شدت کے بعد بھی ورم اور میٹابولک سسٹم کے اثرات کو کئی ماہ تک کے لیے بدل دیتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں میں یہ خلیات انفلیمٹری اور میٹابولک ایکسپریشن کو بیماری کے بعد 3 سے 5 ماہ کے لیے بدل دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان میں سے بیشتر افراد میں طویل المعیاد علامات نہیں تھیں مگر ان کا مدافعتی نظام دیگر کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوگیا تھا۔

کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں لانگ کووڈ تو کسی حد تک عام ہے مگر معمولی بیمار ہونے والے متعدد لوگوں کو بھی اس کا سامنا ہوتا ہے

اس پہلو کی جانچ پڑتال کے لیے 68 ایسے افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جن میں کووڈ 19 کی معمولی شدت کی تشخیص ہوئی تھی اور اس کا موازنہ اس بیماری سے محفوظ رہنے والے 36 افراد کے نمونوں سے کیا گیا۔

محققین نے لیبارٹری میں ان خلیات کو خون سے الگ کیا اور اسپائیک پروٹین، اسٹرائیڈز اور lipopolysaccharides کے ذریعے مدافعتی نظام کو متحرک کیا گیا۔

خلیات کا پھر آر این اے سیکونس بنایا گیا اور ورم کے بنیادی عنصر کو بھی جانچا گیا۔

محققین نے بتایا کہ کووڈ کے مریضوں میں ایسے مخصوص مالیکیولز کی سطح میں اضافے کو دریافت کرنا حیران کن نہیں تھا جو بیماری کے دوران ورم کا باعث بنتے ہیں، مگر حیران کن بات یہ تھی کہ وہ مالیکیولز بیماری کے کئی ماہ بعد بھی اتنی زیادہ مقدار میں بن رہے تھے۔

تحقیق میں leukotrienes نامی پرو انفلیمٹری مالیکیولز کے اجتماع کو بھی دریافت کای گیا جن کو دمہ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔

محققین نے کہا کہ کووڈ کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد کے مدافعتی خلیات میں leukotrienes کی سطح میں اضافہ برقرار رہنا چونکا دینے والا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مالیکیولز بیاری کے بعد نظام تنفس کے ورم کے حوالے سے زیادہ حساسیت کا باعث بنتے ہیں مگر کورونا یا دیگر وائرسز کے خلاف اینٹی وائرل مدافعت بھی بہتر کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہ نتائج براہ راست لانگ کووڈ سے منسلک ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اب ایسی تحقیق کرنا چاہتے ہیں جن میں کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد اور اس سے محفوظ رہنے والے ایسے افراد کو شامل کیا جائے گا جو کسی اور قسم کے نظام تنفس کی بیماری جیسے انفلوائنزا کا شکار ہوں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل Mucosal امیونولوجی میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں