سری لنکا: مظاہرین کی صدر کے دفتر پر دھاوا بولنے کی کوشش

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2022
مارچ میں شریک ایک رکشہ ڈرائیور نسانکا گونیوردینا کا کہنا ہے ہم 14 سے 16 گھنٹے کام کر رہے ہیں پھر بھی اتنی رقم حاصل نہیں ہوپاتی کہ اپنے خاندان کے اخراجات اٹھاسکیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
مارچ میں شریک ایک رکشہ ڈرائیور نسانکا گونیوردینا کا کہنا ہے ہم 14 سے 16 گھنٹے کام کر رہے ہیں پھر بھی اتنی رقم حاصل نہیں ہوپاتی کہ اپنے خاندان کے اخراجات اٹھاسکیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

سری لنکا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب جدید تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران سے پریشان مشتعل افراد کے ہجوم نے سری لنکن صدر کے دفتر پر دھاوا بولنے کی کوشش کی۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی ملک میں خوراک، ادویات اور دیگر اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ پیٹرول اسٹیشنز کے باہر قطاریں اور بلیک آؤٹ بھی معمول کا حصہ بن گیا ہے۔

کولمبو میں اپوزیشن جماعتوں کی قیادت میں سیکڑوں مظاہرین کی جانب سے مارچ کیا گیا۔

مارچ میں شریک ایک رکشہ ڈرائیور نسانکا گونیوردینا کا کہنا تھا کہ ہم 14 سے 16 گھنٹے کام کر رہے ہیں پھر بھی اتنی رقم حاصل نہیں ہوپاتی کہ اپنے خاندان کے اخراجات اٹھاسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ’کوئی اس طرح کیسے زندہ رہ سکتا ہے‘۔

34 سالہ نسانکا گونیوردینا کے دو بچے بھی ان کے ہمراہ موجود تھے انہوں نے بلیک ہیڈ بینڈ پہنا ہوا تھا جس پر ’گوٹا گو ہوم‘ تحریر تھا۔

ملک میں غیر ملکی کرنسی کے سنگین بحران نے تاجروں کو پریشان کر دیا ہے، جو درآمدات کی ادائیگی کرنے میں بھی ناکام ہیں، صدر گوٹا بیا راجاپاکسا نے بدترین معاشی صورتحال کے حل پر تبادلہ خیال کے لیے دورے پر آئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے وفد سے ملاقات کی۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی سری لنکا کو 5 کروڑ ڈالر کی نئی دفاعی کریڈٹ لائن سہولت کی پیشکش

ملاقات کے بعد مظاہرین نے کولمبو کی متعدد سڑکوں کو بلاک کردیا جو کئی ہفتوں سے تیل کے بحران کے سبب پبلک ٹرانسپورٹ کے تعطل کے باوجود دارالحکومت کے مرکزی حصے پہنچ گئے تھے۔

مظاہرین کی قیادت اپوزیشن جماعت ایس جے بی کر رہی تھی، ایوان صدر کے اطراف مظاہرین اور مسلح پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپ ہوئی، پولیس نے مظاہرین کے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنادی۔

ایس جے بی کےقانون ساز ہرین فرنانڈو کا کہنا ہے کہ ’ یہ لوگ یہاں صدر کو یہ کہنے آئے ہیں کہ اگر وہ غیر مثالی معاشی مسائل کے سبب عام شہری کو درپیش مشکلات حل نہیں کرسکتے تو گھر چلے جائیں‘۔

اس موقع پر ہجوم کی جانب سے صدر گوٹابیا راجا پاکسا سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے بازی بھی کی گئی۔

عالمی وبا کورونا وائرس نے سری لنکا کی معیشت کو تباہ کردیا ہے، اس سے جزیرے میں سیاحت سے آنے والی آمدن بھی شدید متاثر ہوئی ہے جو زرِ مبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

بین الاقوامی ریٹنگ کے اداروں کی جانب سے سری لنکا کی درجہ بندی میں کمی کرتے ہوئے تجارتی قرضوں تک اس کی رسائی کو مؤثر انداز میں روک دیا گیا ہے اور 51 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر حکومت کی اہلیت پر شک کا اظہار کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا: تیل کا بحران سنگین، بجلی کی طویل بندش کا اعلان

فروری کے آغاز سے اب تک ایندھن کی قیمت میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ جنوری کے اعداد وشمار کے مطابق اشیا خور و نوش کی قیمت میں بھی 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

سری لنکا کی جانب سےگزشتہ ہفتے روپے کو فلوٹ کرنے کی اجازت دی تھی، یہ اقدام ڈالر کے خلاف سری لنکن روپے کی قدر میں 25 فیصد کمی کے بعد سامنے آیا، جس نے مہنگائی کی نئی لہر کو جنم دیا ہے۔

یہ اقدام آئی ایم ایف کی جانب سے معیشت کو بحال کرنے کے لیے کرنسی کی قدر میں کمی اور ٹیکسز میں اضافے کے مطالبے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔

پیر کو جاری ہونے والے تفصیلی بیان میں آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان سے بیل آؤٹ کے لیے نہیں کہا گیا لیکن ’اگر درخواست کی گئی توآپشنز پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں