حکومت بچ سکتی ہے لیکن عمران خان کا وزیراعظم رہنا مشکل ہے، خالد مقبول

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2022
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی مطالبات کو ماننے اور عمل کرنے کے لیے تیار ہے تو ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں گے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ اگر پیپلز پارٹی مطالبات کو ماننے اور عمل کرنے کے لیے تیار ہے تو ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں گے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت بچ سکتی ہے لیکن عمران خان کا وزیراعظم رہنا اب مشکل لگ رہا ہے،

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں جب خالد مقبول صدیقی سے سوال کیا گیا کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت بچ سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ آج صورتحال بڑی افسوسناک ہے کیونکہ یہ سب جمہوریت کے تقاضوں کے تحت ہونا چاہیے تھا لیکن اب حکومت کا بچنا مشکل لگ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ڈی چوک جلسہ': صورتحال خراب ہوئی تو ذمے داری شیخ رشید، انتظامیہ پر عائد ہوگی'

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہی سب ہوا تو آخر حکومت کیسے بچ پائے گی، کچھ سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ اگر مشیر ٹھیک ہوئے تو ایسا فیصلہ ہو سکتا ہے جس سے جمہوریت بھی بچ سکتی ہے اور پاکستان بھی بچ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت بچ سکتی ہے لیکن عمران خان کا وزیراعظم رہنا مجھے مشکل لگ رہا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) کا کیا فیصلہ ہوتا ہے، عمران خان کا وزیراعظم کے عہدے پر رہنا مشکل لگ رہا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر نے کہا کہ جب 100 سے زائد کارکن لاپتا ہوں اور بنیادی سہولیات کے حصول میں بھی رکاوٹ ہو رہی ہو تو حکومت میں شمولیت اور وزارتوں میں شمولیت اب ایم کیو ایم کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی اور ہمیں ابھی بہت سارے فیصلے کرنے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ماضی میں ہمارے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہ کیے جانے کی وجہ سے کچھ شکوک و شبہات ہیں لیکن اگر پیپلز پارٹی ہمارے مطالبات کو ماننے اور عمل کرنے کے لیے تیار ہے تو ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد: عامر لیاقت نے گورنر سندھ، پی ٹی آئی اراکین کو آڑے ہاتھوں لے لیا

ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ایم کیو ایم کو حکومت کا حصہ بننے کے بجائے ان علاقوں کا شیئر لینے کی ضرورت ہے جہاں سے ہمارا گزشتہ 35سال سے مینڈیٹ ہے، یہ ہمارا حق اور پیپلز پارٹی کا فرض ہے۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پیلپز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات میں خوشگوار حیرت ہوئی تھی کیونکہ وہ بہت سارے معاملات کو سمجھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ یہ دراڑیں مزید گہری نہ ہوں اور یہ خلیج مزید وسیع نہ ہو، اگر ایسی کوئی نیت ہے رو ہم بلاوجہ اعتراض نہیں کریں گے۔

انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ ایم کیو ایم کا 100فیصد جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہے اور کہا کہ ہم سے ماضی میں جو وعدے کیے گئے ان میں اگر کسی پر کوئی عملدرآمد کیا گیا ہے تو وہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں ہی ہوا ہے البتہ وہ معاہدے مکمل طور پر پورے نہیں کیے گئے بلکہ پی ٹی آئی سندھ نے بھی ہمیں اپنا حریف سمجھا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر نے کہا کہ بقیہ دونوں بڑی جماعتوں کے ساتھ بھی بہت خوشگوار تاریخ نہیں ہے لیکن ہم نے ایک نئی امید کے ساتھ گفتگو شروع کی ہے، ہم جدوجہد اسی لیے کررہے تھے کہ پیپلز پارٹی اور وفاق ہمارے مطالبات کو سنے اور اب پیپلز پارٹی نے ہمارے مطالبات پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے ملاقاتیں کوئی شراکت نہیں ہے، اگر کل ہمیں لگے گا کہ یہ مطالبات پورے نہیں ہو رہے تو پھر ہمارا دوبارہ سے سڑکوں پر جدوجہد کررہے ہوں گے۔

مزید پڑھیں: سندھ میں گورنر راج لگانے کا فی الحال فیصلہ نہیں ہو سکا، شیخ رشید

ان کا کہنا تھا کہ وفاق نے سندھ میں گورنر راج لگانے میں دیر کردی، یہ اس وقت کرنا چاہیے تھا جب یہاں کرپشن، امن و امان کے مسائل تھے تو اس وقت یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا، اب اپنے اقتدار کے معاملے میں آپ گورنر راج کے بارے میں فیصلہ کررہے ہیں تو میرے خیال میں انہوں نے دیر کردی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہو پائے گا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ تحریک اعتماد میں اپوزیشن اور حکومت کا ساتھ دینے کے حوالے سے فیصلہ کب تک کریں گے تو خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں، ہمارے پاس تحریک اعتماد پیش کیے جانے تک کی مدت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں