بیرک کا پاکستان کے ساتھ تنازع ختم کرتے ہوئے ریکوڈک پروجیکٹ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ

21 مارچ 2022
اوپن پٹ مائن پروجیکٹ کو2013 میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا—فائل فوٹو:رائٹرز
اوپن پٹ مائن پروجیکٹ کو2013 میں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا—فائل فوٹو:رائٹرز

پاکستان نے غیر ملکی فرم کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کیا ہے، معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کے جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کنسورشیم ٹیتھیان کاپر کمپنی، جس میں کینیڈا کی سونے کی فرم بیرک اور چلی کی اینٹوفاگاسٹا منرلز نامی کمپنیاں شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کمپنی 37.5 فیصد حصہ کنٹرول کرتی ہے، انہیں بلوچستان میں ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر ملے تھے۔

مقامی حکومت کی جانب سے ٹیتھیان کاپر کمپنی کی لیز کی تجدید سے انکار کے بعد 2011 میں انتہائی قیمتی اوپن پٹ مائن پروجیکٹ رک گیا تھا اور 2013 میں سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ریکوڈک کیس: 'پاکستان بدعنوانی کے الزامات کے ذریعے دفاع نہیں کرسکتا'

2019 میں، عالمی بینک کی ثالثی ٹریبونل کمیٹی نے کان کنی کے منصوبے کے غیر قانونی انکار پر پاکستان پر جرمانہ عائد کیا تھا۔

پاکستانی حکام نے ایک دہائی طویل قانونی جنگ کے بعد بیرک گولڈ کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کا اعلان کردیا۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ معاہدے نے ہم پر تقریباً 11 ارب ڈالر کا جرمانہ منسوخ کر دیا ہے، اس کے علاوہ بیرک اور اس کی پارٹنرز کمپنیاں پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے، اس سے پاکستان اور بلوچستان کو اگلے 100 سالوں تک فائدہ ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر دنیا میں سونے اور تانبے کی سب سے بڑی کان ثابت ہو گا، اپنے ایک بیان میں انہوں نےکہا کہ یہ ہمیں قرضوں سے نجات دلائے گا اور ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:ریکوڈک کیس: پاکستان پر ہرجانہ نافذ کرنے کیلئے کمپنی کا ورجن آئی لینڈ کی عدالت سے رجوع

قدرتی وسائل کی کثرت سے مالا مال بلوچستان جس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔

ماہرین نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کان کنی پر چھوٹی کمپنیوں کا غلبہ ہے جو بنیادی طور پر ماربل اور گرینائٹ پر زیادہ کام کرتی ہیں، یہ کمپنیاں قدرتی معدنیات نکالنے کی ناقص تکنیکوں کی وجہ سے ممکنہ پیداوار کا 80 فیصد تک ضائع کر دیتی ہیں۔

قانونی ماہر اسامہ ملک کا اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے لیے پاکستان کی جانب سے کیا گیا تصفیہ ہی واحد حل اور بہترین معاہدہ اور حل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی فریق کے لیے مزید کوئی اپیلیں دستیاب نہیں تھیں، ملک کے پاس بہت زیادہ نقصانات کی ادائیگی کے لیے وسائل بھی نہیں،

منصوبے کی تشکیل نو کے بعد، بیرک کے پاس 50 فیصد، پاکستان کی وفاقی حکومت کے اداروں کے 25 فیصد، اور بلوچستان حکومت کے پاس 25 فیصد حصے ہوں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Mar 21, 2022 12:36pm
جس طرح پہلے خفیہ طور پر معاہدہ کیا گیا تھا اب اُسی طرح اِسے بحال کیا گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا اس معاہدہ کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرتی اور اس کی جزیات پر بحث کرتی، اس کے بعد اس کو قبول کیا جاتا۔ بعد میں پتہ چلے کہ پاکستان کے عوام کے مفادات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔