پی ٹی آئی نے پارٹی فنڈنگ سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کردیا

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2022
اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں فارن فنڈنگ کیس کی درخواست دائر کی تھی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں فارن فنڈنگ کیس کی درخواست دائر کی تھی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) سے رجوع کرلیا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے ناراض بانی رکن کو فارن فنڈنگ کیس سے باہر رکھنے اور اس کیس میں فنڈنگ کے ذرائع کو خفیہ رکھنے کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر اسد عمر نے کمیشن کے 15 مارچ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

ای سی پی نے اس سے قبل پی ٹی آئی کے ناراض بانی رکن اور کیس میں شکایت کنندہ اکبر ایس بابر کو غیر ملکی فنڈنگ کی کارروائی سے باہر رکھنے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ان کے ساتھ مطلوبہ دستاویزات کا اشتراک نہ کرنے پر پی ٹی آئی کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی مالی دستاویزات کے مطالعے کی اجازت دے دی

خیال رہے کہ اکبر ایس بابر کی جانب سے نومبر 2014 میں فارن فنڈنگ کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل نے درخواست میں کہا ہے کہ ای سی پی کو شکایت کنندہ کو اپنی کارروائی سے دور رکھنے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے حاصل کردہ تفصیلات سمیت ریکارڈ شیئر نہ کرنے کی وجوہات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا گیا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ای سی پی اس معاملے میں اصل مسئلے کو سمجھنے میں ناکام رہا، یہ مسئلہ ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں موجود تھا۔

درخواست گزار نے کہا کہ اکبر ایس بابر سے ریکارڈ جمع نہیں کیا گیا ہے، اس لیے اسے خفیہ رکھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'پی ٹی آئی فنڈنگ کی اسکروٹنی کا خیر مقدم، ن لیگ، پیپلز پارٹی کی اسکروٹنی کا منتظر ہوں'

انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ وہ ای سی پی کے اس ریکارڈ کو شکایت کنندہ کے ساتھ شیئر کرنے کے فیصلوں کو ایک طرف رکھے اور اسے غیر ملکی فنڈنگ کیس کا حصہ بننے کی اجازت دے۔

سینیٹ پینل نے بل کا مسودہ مسترد کردیا

دریں اثنا سینیٹ کے پینل نے اکثریتی ووٹوں سے انتخابی ترمیمی بل کو مسترد کر دیا جس میں عوامی عہدے داروں کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔

سینیٹ کمیٹی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن ارکان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت ای سی پی کے اختیارات میں کمی نہیں کی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابی ضابطہ اخلاق بنانا اور اس میں ترمیم کرنا ای سی پی کا آئینی حق ہے اور ’متنازع‘ آرڈیننس ای سی پی کے خصوصی اختیار میں واضح مداخلت ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن سے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی براہ راست سماعت کی درخواست

ای سی پی کے سیکریٹری عمر حمید خان نے سینیٹرز کو بتایا کہ 19 فروری کو جاری کیا گیا آرڈیننس عوامی عہدیداروں کو انتخابی امیدواروں کی مہم میں حصہ لینے کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے حکومت سے کہا کہ وہ اس بل پر نظرثانی کریں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ایسے آرڈیننس کو رات کی تاریکی میں نافذ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ جب عدالت اور پارلیمنٹ دونوں کی جانب سے مسترد نہ کیا گیا ہو تو ایسے میں آرڈیننس کو نافذ کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔

بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا کہ آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے وزیراعظم اور دیگر سرکاری افسران کو جاری کیے گئے نوٹسز اور جرمانے واپس لیے جائیں۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ صدر نے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے آرڈیننس جاری کیا، اس طرح ای سی پی کے دائرہ اختیار پر تجاوز کیا گیا جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے آئینی طور پر ذمہ دار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس: ای سی پی کا خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا حکم

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سوال کیا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 222 کی نفی کرتے ہوئے ای سی پی کو دیے گئے اختیارات کو کسی آرڈیننس کے تحت چھینا یا ختم کیا جا سکتا ہے؟

ای سی پی کے سیکریٹری نے کہا کہ حالیہ دنوں میں آرڈیننس کے سبب 98 بار ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی اور معلوم ہوا ہے کہ 62 بار حکمران جماعت کی جانب سے خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں