پاک-آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز اپنے تمام تر سرد و گرم اور نرم و شیریں لمحات کے ساتھ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

اس سیریز میں راولپنڈی ٹیسٹ جیسا مقابلہ بھی کھیلا گیا کہ جو کچھ ہی عرصے میں تاریخ کے کوڑے دان میں پڑا ہوگا۔ امام الحق کی دونوں اننگز میں سنچریاں، اظہر علی کی تقریباً ڈبل سنچری اور نعمان علی کی وکٹیں، یہ سب بھولی بسری یاد بن جائیں گی کیونکہ اس میچ میں کچھ ایسا تھا ہی نہیں کہ جسے بہت عرصے تک یاد رکھا جائے۔

پھر کراچی یعنی پاکستان کے قلعے میں دوسرا ٹیسٹ ہوا، جہاں پل میں تولا اور پل میں ماشہ، میچ نے خوب رنگ بدلے اور بالآخر ’تاریخ کے بہترین بے نتیجہ مقابلوں‘ میں شمار ہوگیا۔ اس میچ کی عظمت کا اندازہ شاید ابھی نہ ہو لیکن پاکستان کا یہ ’عظیم فرار‘ بہت طویل عرصے تک یاد رہے گا۔

پھر آیا لاہور۔ آخری منزل، آخری پڑاؤ کہ جہاں پاکستان ہارتے ہارتے بالآخر ہار ہی گیا۔ پہلی اننگ میں صرف 20 رنز پر 7 وکٹیں گنوانے کے بعد 164 رنز کا خسارہ اور آخری اننگ میں 351 رنز کا مشکل ہدف ناممکن ہوگیا اور آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کرکے سیریز بھی ‏1-0 جیت لی۔

یوں تو یہ تاریخی سیریز اپنی کئی یادیں پیچھے چھوڑ گئی ہے، مگر ہم نے یہاں 5 اچھی اور 5 مایوس کن یادوں کو اکٹھا کیا ہے۔ آئیے ایک، ایک کرکے ان پر نظر ڈالتے ہیں۔

اچھی یادیں


پنڈی میں مور ناچا، سب نے دیکھا


گوکہ پنڈی ٹیسٹ پوری سیریز کا سب سے مایوس کن مقابلہ تھا لیکن ایک حوالے سے یہ سب سے الگ اور سب سے جُدا تھا۔ وہ تھا تماشائیوں کے لحاظ سے۔

پہلے ٹیسٹ کے تقریباً تمام دن تماشائیوں کی بہت بڑی تعداد اسٹیڈیم میں موجود رہی جو میچ کی سُست ترین پیشرفت کے باوجود جھپٹتی، پلٹتی اور پلٹ کر جھپٹتی رہی اور یوں ماحول گرماتی رہی۔ منفرد پلے کارڈز، مہمان کھلاڑیوں کا بھرپور خیر مقدم اور سب سے بڑھ کر کان پھاڑ دینے والے باجے! اُف!


معجزۂ کراچی


کراچی میں کھیلا گیا دوسرا ٹیسٹ بظاہر بے نتیجہ ثابت ہوا لیکن اسے پاکستان کی بہت بڑی کامیابی سمجھنا چاہیے کیونکہ 408 رنز کے خسارے کے باوجود پاکستان یہ میچ بچانے میں کامیاب ہوگیا جو انہونی سی بات لگتی ہے۔

آسٹریلیا نے پاکستان کو 506 رنز کا ہدف دیا تھا اور آخری تقریباً 2 دن کا کھیل باقی تھا۔ یہاں پاکستان نے تقریباً 172 اوورز تک آسٹریلیا کی باؤلنگ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ناقابلِ یقین کو یقین کے دائرے میں لے آیا۔

بابر اعظم نے سب سے زیادہ 196 رنز بنائے جبکہ محمد رضوان کی ناٹ آؤٹ سنچری بھی نمایاں رہی۔ لیکن ایک خاموش ہیرو عبداللہ شفیق تھے جنہوں نے اپنے 96 رنز کے لیے 305 گیندیں استعمال کیں۔


جشن پاکستانی، کھلاڑی آسٹریلوی


کراچی میں ایک یقینی فتح سے محروم ہوجانے کے باوجود آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے اعتماد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لاہور میں انہوں نے سلسلہ وہیں سے جوڑا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔

آخری دن جب انہیں کامیابی کا یقین ہوگیا تو وہ بہت خوش و خرم نظر آئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کے جشن کے انداز کی نقل تک کی۔

مثلاً عثمان خواجہ کو ساجد علی کے انداز کی نقل کرتے دیکھا گیا۔ حسن علی کی وکٹ گئی تو قریب کھڑے ڈیوڈ وارنر نے وہی مخصوص ’جنریٹر‘ انداز اپنایا جو حسن علی وکٹوں کے بعد اختیار کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس بہتی گنگا میں اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز کھیلنے والے مچل سویپسن نے بھی ہاتھ دھوئے کہ جو شاہین آفریدی کے مخصوص انداز کی نقل کرتے ہوئے دکھائی دیے۔


بادِ نسیم، پروازِ شاہین


لاہور ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں آسٹریلیا 5 وکٹوں پر 341 رنز بنا چکا تھا جب بادِ نسیم چلی اور شاہین نے پرواز کی۔ صرف 50 رنز کے اضافے سے پاکستان نے آسٹریلیا کی باقی وکٹیں حاصل کرکے تہلکہ مچا دیا۔ یہ لاہور ٹیسٹ میں پاکستان کے لیے واحد خوشی کا موقع تھا جس میں نسیم شاہ اور شاہین آفریدی نے 4، 4 وکٹیں حاصل کیں۔

شاہین نے ڈیوڈ وارنر اور مارنس لبوشین کو آؤٹ کرنے کے بعد آخر میں مچل اسٹارک اور مچل سویپسن کی وکٹیں لیں جبکہ نسیم شاہ نے اسٹیون اسمتھ، ٹریوس ہیڈ، کیمرون گرین اور نیتھن لائن کو شکار کیا۔ اس اننگ میں دونوں کی طوفانی باؤلنگ نہ صرف آخری ٹیسٹ بلکہ پوری سیریز کے یادگار ترین لمحات میں سے ایک تھی۔


پیٹ کمنز کا جرأت مندانہ فیصلہ


کراچی ٹیسٹ میں آسٹریلیا کی جانب سے پاکستان کو فالو آن پر مجبور نہ کرنے کے فیصلے پر کڑی تنقید ہوئی تھی بلکہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کے میچ میں واپس آنے کی وجہ یہی فیصلہ بنا۔ لیکن پیٹ کمنز کی جرأت دیکھیں کہ جب لاہور میں تقریباً ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوا تو انہوں نے بالکل دریغ نہ کیا اور وہی قدم اٹھایا جس پر تنقید ہوئی تھی۔

انہوں نے اس وقت دوسری اننگ ڈکلیئر کی جب آسٹریلیا 227 رنز بنا چکا تھا اور اس کی مجموعی برتری 350 رنز تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان نے کراچی میں 506 رنز کے تعاقب میں 443 رنز بنا لیے تھے۔ پھر جب لاہور ٹیسٹ کی آخری اننگ میں پاکستانی اوپنرز نے ہی 73 رنز کی شراکت کر ڈالی تو کہا جانے لگا کہ کمنز نے پاکستان کی طاقت کا غلط اندازہ لگا لیا۔

بہرحال، آخری روز ان کا یہ فیصلہ صد فی صد درست ثابت ہوا۔ پاکستان ان کے اندازے سے کہیں پہلے ہی آل آؤٹ ہوگیا اور یوں سیریز آسٹریلیا کے دامن میں آ گری۔

بُری یادیں


پنڈی ڈی میرٹ


راولپنڈی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں کُل 1187 رنز بنے اور وکٹیں صرف 24 گریں جبکہ آسٹریلیا کے باؤلرز تو 728 رنز دے کر صرف 4 وکٹیں ہی حاصل کر پائے۔

ٹیسٹ بلاشبہ ڈرا ہوتے ہیں لیکن عرصہ ہوا کبھی اس طرح کا بھیانک ڈرا نہیں دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ اس پچ کو غیر معیاری قرار دیتے ہوئے اسے ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دیا گیا۔ واضح رہے کہ 5 ڈی میرٹ پوائنٹس ملنے پر اس میدان پر ایک سال کی پابندی لگ جاتی ہے۔


عذرِ گناہ


وہ کہتے ہیں نا کہ عذرِ گناہ، بدتر از گناہ۔ یعنی کسی غلط کام کی توجیہ پیش کرنا، دراصل اس کام سے بھی زیادہ بُرا ہے۔ پاکستان نے جو بھی سوچ کر پنڈی میں ایسی پچ بنائی، اس کے بعد کم از کم خود چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کو کوئی بیان جاری نہیں کرنا چاہیے تھا۔ لیکن انہوں نے تو پورا لیکچر ہی سنا ڈالا۔

نتیجتاً یہ تاثر گیا کہ پاکستان نے جان بوجھ کر پنڈی میں ایسی پچ بنائی تاکہ باؤلنگ کے شعبے میں آسٹریلیا کو حاصل برتری کا خاتمہ ہوسکے۔ ایسی دفاعی سوچ کا نتیجہ کیا نکلنا تھا؟ جی ہاں! شکست، جو بالآخر پاکستان نے کھائی۔


پاکستان 20 رنز اور 7 وکٹیں


پاکستان کے لیے پوری سیریز کا سب سے مایوس کن لمحہ تھا لاہور ٹیسٹ کی پہلی اننگ کا وہ مرحلہ جس میں پاکستان کی 7 وکٹیں صرف 20 رنز پر گریں۔

آسٹریلیا کے 556 رنز کے جواب میں پاکستان 3 وکٹوں پر 248 رنز کے ساتھ کھیل رہا تھا اور پھر اچانک گویا سیلاب کے آگے بند ٹوٹ گیا۔ صرف اور صرف 20 رنز کے اضافے سے پاکستان کی آخری 7 وکٹیں گر گئیں اور 268 رنز پر پہنچ کر تان ٹوٹ گئی۔

پہلی اننگ کا یہ 123 رنز کا خسارہ ہی تھا جو بالآخر فیصلہ کن ثابت ہوا اور آسٹریلیا نے ٹیسٹ اور سیریز دونوں جیت لیے۔


الٹرا ایج کے کارنامے


ایک عجیب و غریب لمحہ وہ تھا جب ڈسیژن ریویو سسٹم (ڈی آر ایس) میں شامل ایک ٹیکنالوجی 'الٹرا ایج' نے آخری ٹیسٹ کے آخری دن ’کھیلنا‘ شروع کردیا۔

میچ کے ایک نازک مرحلے پر پاکستانی بلے باز اظہر علی کو اس طرح آؤٹ دیا گیا کہ گیند ان کے بلّے کے پاس سے گزری اور 'الٹرا ایج' نے ایک سرسراہٹ ظاہر کی۔ گوکہ یہ گیند کے بلّے تک پہنچنے سے پہلے بھی محسوس ہو رہی تھی لیکن تھرڈ امپائر نے اسی کو کافی سمجھا اور اظہر علی کو واپسی کا پروانہ تھما دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ہی دیر بعد بابر اعظم کے خلاف کیچ کی ایک اپیل ہوئی اور آسٹریلیا نے ریویو نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ری پلے میں ظاہر ہوا کہ یہاں بھی ایسی ہی سرسراہٹ نظر آئی تھی۔ ہوسکتا ہے آسٹریلیا ریویو لیتا تو بابر اعظم کہیں پہلے آؤٹ ہوجاتے۔


لاہور کے تماشائی


اب جو بہانہ چاہیں تراش لیں۔ بقول شاعر: مزاج برہم، طویل رستہ، برستی بارش، خراب موسم

لیکن حقیقت یہ ہے کہ تماشائیوں کے لحاظ سے لاہور ٹیسٹ نے سب سے زیادہ مایوس کیا۔ اب چاہیں لاہوری شدید گرم موسم کو بنیادی وجہ قرار دیں یا دیگر بہانے کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ لاہور میں وہ بات نظر نہیں آئی۔ سوشل میڈیا کے مقبول بہانوں میں ’میدان بہت بڑا ہے‘ اور ’اسٹینڈز میں سایہ نہیں تھا‘، سرِفہرست رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں