امریکا اور برطانیہ نے میانمار پر نئی پابندیوں کا اعلان کردیا

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2022
میانمار کی فوج پر مسلمانوں کی نسل اور مظاہرین کے قتل عام کا الزام ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
میانمار کی فوج پر مسلمانوں کی نسل اور مظاہرین کے قتل عام کا الزام ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکا اور برطانیہ نے میانمار میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے خلاف مظالم کو نسل کشی قرار دیے جانے کے بعد فوج کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کردیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ان پابندیوں کا اعلان گزشتہ سال بغاوت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے خلاف خونریز کریک ڈاؤن کی برسی کے موقع پر کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم نسل کشی قرار دے دیا

نئے اقدامات ایک ایسے موقع پر سامنے آئیں ہیں جب چند دن قبل ہی امریکا نے کہا تھا کہ میانمار کی فوج روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت کی نسل کشی میں ملوث ہے۔

دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس کے امریکی انڈر سیکریٹری برائے ٹریژری برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا کہ ظلم اور جبر میانمار کی فوجی حکومت کا طرہ امتیاز بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹریژری ان لوگوں کا احتساب کرنے کے لیے پرعزم ہے جو اس تشدد اور جبر کے ذمہ دار ہیں۔

واشنگٹن کی پابندیوں کا ہدف دو فوجی کمانڈرز، ایک انفنٹری ڈویژن کے ساتھ ساتھ تین کاروباری افراد اور چار کاروبار ہیں۔

دوسری جانب برطانیہ نے بھی فضائیہ کے نئے سربراہ اور بیلاروس کے اعزازی قونصل کے طور پر کام کرنے والے ایک تاجر کے ساتھ ساتھ ایک کمپنی کو پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے، اس سے قبل امریکا بھی اس کمپنی پر پابندیاں لگا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہمیں فلسطین، کشمیر، میانمار کے مسلمانوں کے مسائل سے نمٹنا ہوگا، وزیرخارجہ

برطانیہ کی وزیر برائے ایشیا امانڈا ملنگ نے کہا کہ میانمار کی فوج نے میانمار کی جانب سے جمہوریت کے لیے لڑنے والے لوگوں کے خلاف تشدد کی وحشیانہ مہم کو روکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں ان لوگوں کو نشانہ بناتی ہیں جو فوج کو ہتھیاروں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ملک بھر میں ہونے والی زیادتیوں میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔

فروری 2021 کی بغاوت اور آنگ سان سوچی کی معزولی کے ساتھ ساتھ روہنگیا کے خلاف 2016 اور 2017 میں تشدد کی وجہ سے مغربی ممالک کی جانب سے میانمار پر پابندیوں اور دباؤ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

نئی امریکی پابندیوں کا اطلاق بریگیڈیئر جنرل کو کو او اور میجر جنرل زاو ہین کے ساتھ ساتھ 66 ویں لائٹ انفنٹری ڈویژن پر ہوتا ہے، جس کے بارے میں ٹریژری نے کہا کہ اس پر دسمبر 2021 میں قتل عام کا الزام لگایا گیا ہے اور فوجیوں نے کچھ شہریوں کو مبینہ طور پر زندہ جلا دیا تھا۔

مزید پڑھیں: آئی سی جے میں میانمار کی نمائندگی کیلئے فوج، معزول حکومت میں ٹھن گئی

تین افراد اور دو کمپنیوں کو بھی فوج کو اسلحہ فراہم کرنے کی منظوری دی گئی تھی جبکہ دو کمپنیوں کو دوسرے کاروباروں کی مدد کے لیے نشانہ بنایا گیا تھا۔

برطانیہ نے میانمار کی فضائیہ کے کمانڈر انچیف ہاتُن آنگ، بیلاروس کے اعزازی قونصل آنگ مو منت اور ان کی کمپنی کے ساتھ فضائیہ کو سپورٹ کرنے والی ایک کمپنی پر پابندی لگانے کی منظوری دی۔

امریکا نے میانمار میں فروری 2021 میں فوجی حکومت کے قبضے کے بعد بھی کئی پابندیاں عائد کردی تھیں، جہاں حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران سیکڑوں شہریوں کا قتل کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اگست 2017 میں میانمار میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے خلاف بدترین کارروائیاں کی گئی تھیں، جس کے بعد 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان پڑوسی ملک بنگلہ دیش منتقل ہوگئے تھے جہاں ان کے لیے مہاجر کیمپ تشکیل دیے گئے ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی بدترین کارروائیوں کا الزام میانمار کی سیکیورٹی فورسز پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں