آئی سی جے میں میانمار کی نمائندگی کیلئے فوج، معزول حکومت میں ٹھن گئی

اپ ڈیٹ 18 فروری 2022
عالمی عدالت انصاف دی  ہیگ میں قائم ہے —تصویر: رائٹرز
عالمی عدالت انصاف دی ہیگ میں قائم ہے —تصویر: رائٹرز

میانمار کی فوجی حکومت آئندہ ہفتے دی ہیگ میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت میں ہونے والی سماعتوں میں سیاسی مخالفین کی اس شکایت کے باوجود حصہ لے گی کہ اس سے اُسے قانونی حیثیت کے بغیر بین الاقوامی سطح پر پہچان مل سکتی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق ان سماعتوں نے 2019 میں عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں دائر کردہ گمبیا کے دعوے سے پیدا ہونے والے دائرہ اختیار کے تنازع کو پیچیدہ بنا دیا ہے، جس میں میانمار پر اس کی اقلیتی مسلم روہنگیا آبادی کے خلاف نسل کشی کا الزام لگایا گیا تھا۔

سال 2017 میں فوج کے کریک ڈاؤن کے بعد7 لاکھ 30 ہزار سے زائد روہنگیا، میانمار سے فرار ہو کر سرحد پار بنگلہ دیش میں قائم کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوج کے خلاف اکسانے کا الزام، آنگ سان سوچی کو 4 سال کی سزا

اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ فوجی مہم 'نسل کشی کے ارادے' کے ساتھ چلائی گئی تھی۔

آنگ سان سوچی نے فوجی بغاوت کے نتیجے میں اپنی سویلین نیشنل یونٹی گورنمنٹ (این یو جی) کے خاتمے سے ایک سال قبل گمبیا کی جانب سے فوجیوں کے خلاف نسل کشی کے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

گیمبیا بنیادی طور پر مسلم افریقی ملک ہے جسے اس کیس میں 57 ممالک کی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی حمایت حاصل ہے۔

اب امکان ہے کہ فوجی جنتا کے نمائندے، ممالک کے درمیان تصفیہ کرانے والی آئی سی جے کی ورچوئل سماعتوں میں شرکت کریں گے جن کا آغاز پیر سے ہوگا۔

مزید پڑھیں: میانمار: فوجی بغاوت کی مخالفت کرنے پر سوا لاکھ سے زائد اساتذہ معطل

اقوام متحدہ کی متعدد تنظیموں نے میانمار کی فوجی جنتا کے نمائندوں کو اجلاسوں میں مدعو کیا حالانکہ میانمار کی فوج کی نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں کوئی رسمی حیثیت نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اسناد کمیٹی نے دسمبر میں اس معاملے پر فیصلہ مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس دوران اسناد کمیٹی نے یکم فروری 2021 کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں معزول کی گئی حکومت کے نمائندے کیاو موئے تون کو عہدے پر رہنے کی اجازت دی تھی۔

دوسری جانب 'این یو جی' کے اراکین نے رواں ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ کیاو موئے تون، جنہیں معزول حکومت نے دی ہیگ میں بھی اپنی نمائندگی کے لیے نامزد کیا تھا، وہ واحد شخص ہیں جو میانمار کی جانب سے عدالت کے ساتھ رابطہ کرنے کے مجاز ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف تحریک کی فنڈنگ کیلئے آن لائن مہم شروع

انسانی حقوق کے وکیل اور میانمار پر اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے سابق رکن کرسٹوفر سیڈوٹی نے کہا کہ 'جنتا میانمار کی حکومت نہیں ہے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'جنتا کے پاس نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی اہلیت ہے کہ وہ اندرون یا بیرون ملک میانمار کی حکومت کے طور پر کام کرے لیکن آئی سی جے کے سامنے پیش ہو کر یہ بالکل وہی کرنے کی کوشش کریں گے'۔

ہیگ کی عدالت کے ذرائع نے بتایا کہ فوجی جنتا نے بین الاقوامی رابطہ کاری کے لیے اپنے سفیر کو کو ہلینگ اور میانمار یونین کے اٹارنی جنرل تھیڈا او کو سماعتوں کے لیے 8 رکنی قانونی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں