صدر مملکت نے 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2022
ایوان صدر سے لکھے گئے خط میں الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کے لیے تاریخ تجویز کرنے کا کہا گیا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی
ایوان صدر سے لکھے گئے خط میں الیکشن کمیشن کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کے لیے تاریخ تجویز کرنے کا کہا گیا ہے— فائل فوٹو: اے پی پی

صدر مملکت عارف علوی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے خط لکھ دیا۔

خط میں الیکشن کمیشن کو آئین پاکستان کے تحت 3اپریل 2022 کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کے لیے تاریخ تجویز کرنے کا کہا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: تین ماہ میں عام انتخابات کرانا ممکن نہیں، الیکشن کمیشن

اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 5 (اے) اور آرٹیکل 224 کی شق 2 کے تحت صدر مملکت عام انتخابات کرانے کی تاریخ مقرر کریں گے اور یہ تاریخ اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن سے زائد نہ ہو۔

خط میں کہا گیا کہ آئین کے تحت عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے۔

واضح رہے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کردی تھی جس کے بعد وزیراعظم نے 3 اپریل کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

ایوان صدر سیکریٹریٹ کی جانب سے یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت میں بھیجا گیا کہ جب الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مختلف قانونی رکاوٹوں اور طریقہ کار کے چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے تین ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے سے معذوری کا اظہار کیا تھا۔

ایک سینیئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ عام انتخابات کی تیاریوں میں تقریباً 6 ماہ لگیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: حلقہ بندیوں کے معاملے پر الیکشن کمیشن دباؤ کا شکار

انہوں نے کہا تھا کہ حلقوں کی تازہ حد بندی بالخصوص خیبر پختونخوا میں جہاں 26ویں ترمیم کے تحت نشستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا اور ضلع و حلقہ وار انتخابی فہرستوں کو ہم آہنگ کرنا بڑے چیلنجز ہیں۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ حلقہ بندی ایک وقت طلب کام ہے جہاں قانون صرف اعتراضات کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت فراہم کرتا ہے جبکہ انہیں حل کرنے کے لیے مزید ایک ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔

عہدیدار نے کہا تھا کہ اس کام کو مکمل کرنے کے لیے کم از کم تین ماہ درکار ہوں گے، اس کے بعد ووٹرز کی فہرستوں کو اپ ڈیٹ کرنا ایک اور بڑا کام ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مواد کی خریداری، بیلٹ پیپرز کا انتظام اور پولنگ عملے کا تقرر اور تربیت بھی چیلنجز میں شامل ہیں۔

تاہم گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کرانے سے معذوری ظاہر کرنے کی خبر پر تردید سامنے آئی تھی۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا مئی 2022 میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان

دوسری جانب ڈان میں آج شائع رپورٹ کے مطابق انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں کے معاملے پر بھی الیکشن کمیشن دباؤ کا شکار ہے اور کمیشن نے کم سے کم وقت میں حلقہ بندیوں کے آپشن پر غور شروع کردیا ہے۔

الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 17 (2) ای سی پی کو اختیار دیتا ہے کہ ہر مردم شماری کے باضابطہ طور پر مطلع ہونے کے بعد حلقوں کی حد بندی کی جائے، موجودہ حد بندیاں 2017 کی مردم شماری کے نتائج کے پیش نظر کی گئی ہیں۔

گزشتہ سال مئی میں مردم شماری کے حتمی نتائج شائع ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیاں نہیں کی گئیں، اس کی ایک وجہ پی ٹی آئی کی جانب سے 2023 میں مردم شماری کروانے کا امکان بھی ہوسکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اتنی جلدی حلقہ بندی کا عمل مکمل کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کا 135 پارٹی وفاداروں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ

انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ حل میں سے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حد بندی کی مشق کے لیے ٹائم لائنز میں رد و بدل ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون میں اعتراضات اٹھانے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے جس کے بعد سماعت کا عمل ہوگا، اگر اعتراضات کو ایک ساتھ سنا جائے تو اس سے وقت کی بچت ہو سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں