ایف آئی اے نے کالعدم پیکا آرڈیننس کے تحت درج 7 ہزار مقدمات بند کردیے

اپ ڈیٹ 11 اپريل 2022
شکایت کنندہ خواتین میں زیادہ تعداد سرکاری اور نجی جامعات اور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی تھی — فائل فوٹو: اے پی پی
شکایت کنندہ خواتین میں زیادہ تعداد سرکاری اور نجی جامعات اور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی تھی — فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے حال میں جاری ہونے والے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) ایکٹ (پیکا) آرڈیننس 2022 کے تحت درج کیے گئے تقریباً 7 ہزار مقدمات بند کردیے گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ تحقیقات میں بیشتر شکایات ہتک عزت، ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹ پر شہریوں کو موصول ہونے والی دھمکیوں سے متعلق تھیں۔

ایف آئی اے نے تحقیقات روکنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پیکا میں آرڈیننس کے ذریعے ترامیم نافذ کرنے کے عمل کو ’غیر آئینی‘ قرار دینے کے بعد کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ پیکا 2016 کے سیکشن 20 کے تحت اظہار کی حد تک یا کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا اور سزا دینے کا جرم غیر آئینی ہے اور جواز سے بالاتر ہے۔

مزید پڑھیں: پیکا آرڈیننس: حکومت کو صحافیوں، سیاسی جماعتوں کے شدید ردعمل کا سامنا

معاملے سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ایف آئی اے کے سائبر ونگ نے پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت 7 ہزار مقدمات اور شکایات پر تحقیقات روک دی ہیں، یہ سب عدالتی احکامات کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کارروائی کے آغاز کے بعد موصول ہونے والی 70 فیصد شکایات خواتین کی جانب سے کی گئی تھیں، جنہیں سوشل میڈیا پر ’معلوم اور نامعلوم افراد‘ کی جانب سے ہراساں کیا گیا تھا۔

شکایت کنندہ خواتین میں زیادہ تعداد سرکاری اور نجی جامعات اور تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی تھیں۔

ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے کہا کہ ’60 فیصد خواتین کی جانب سے فیس بک اکاؤنٹ پر جنسی ہراسانی کی شکایات درج کروائی گئی تھیں‘۔

ملزمان نے خواتین کے نام سے فیس بک اکاؤنٹ بھی بنا رکھے ہیں جو شکایت کنندہ خواتین کی تصاویر اور ذاتی معلومات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس غیر آئینی قرار دے دیا

ہتک عزت کا ایک مشہور مقدمہ گلوکارہ میشا شفیع کا بھی ہے، ایف آئی اے کی جانب سے اس مقدمے پر پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت کارروائی کی جارہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت ایک اور مشہور مقدمہ اسلام آباد کے صحافی کے خلاف درج کیا گیا تھا جو پہلے ہی ختم ہوچکا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ 7 ہزار درج مقدمات میں سے 50 فیصد پنجاب کے ملزمان کے خلاف تھے۔

پیکا آرڈیننس اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب ایف آئی اے نے اسد طور، ابصار عالم، محسن بیگ، عمران شفقت سمیت دیگر صحافیوں کے خلاف کارروائی کی۔

بعد ازاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سنگین اعتراضات اٹھانے کے بعد اسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اسے مخالفین کو خاموش کروانے کے لیے طاقت کا غلط استعمال کرنے کی روشن مثال قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: دو بہنوں سمیت ایف آئی اے کے 7 اہلکار گرفتار

ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’متعدد ملزمان کا تعلق لاہور سے ہے جبکہ کراچی دوسرے نمبر پر ہے، ایف آئی اے کے سائبر ونگ کی جانب سے اب پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 کے تحت شکایت وصول نہیں کی جارہی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے تمام متعلقہ افسران کو ہدایت جاری کردی گئی ہیں کہ مستقبل قریب میں سیکشن 20 کے تحت موصول والی درخواستوں پر غور نہ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب ہم محدود شکایات وصول کر رہے ہیں جو پیکا آرڈیننس کے سیکشن 20 سے متعلق نہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں