پنجاب حکومت کا سپریم کورٹ سے منحرف اراکین کےخلاف کارروائی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 12 اپريل 2022
فیاض الحسن چوہان نے اعلیٰ عدالتوں سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
فیاض الحسن چوہان نے اعلیٰ عدالتوں سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

حکومتِ پنجاب کا مؤقف ہے کہ اسپیکر اسمبلی وزیر اعلیٰ کے لیے اپوزیشن کے نامزد کردہ امیدوار کو دیے گئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف ارکان اسمبلی کے ووٹوں کو نہیں گنیں گے جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے سیکریٹری اسمبلی کو ڈپٹی اسپیکر کا دفتر کھولنے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومتی امیدوار برائے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی کے ترجمان فیاض الحسن چوہان نے دعویٰ کیا ہے کہ الیکشن کی دوڑ میں مسلم لیگ(ق) کے رہنما نئے وزیراعلیٰ کے طور پر سامنے آئیں گے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی کو ہوٹل میں روک رکھا ہے اور انہیں ہر چند دن بعد گھوڑوں اور مویشیوں کی طرح مختلف جگہوں پر منتقل کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: جتنی جلدی ہو سکے، پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کرائیں، معاملہ آج ہی حل کریں، چیف جسٹس

پیر کو پنجاب اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ اپوزیشن پی ٹی آئی کے منحرف اراکین قومی اسمبلی کو یہ جانتے ہوئے قومی اسمبلی کے ہال میں نہیں لائی کہ وہ تاحیات نااہل ہو جائیں گے، تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ پی ٹی آئی کے بلے کے نشان پر منتخب ہونے والے اراکین صوبائی اسمبلی کو اپنے امیدوار کو ووٹ دینا ہوگا۔

فیاض الحسن چوہان نے اعلیٰ عدالتوں پر زور دیا کہ وہ آرٹیکل 63اے کو پامال کرنے پر ان اراکین کے خلاف از خود نوٹس لے کر کارروائی کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ 85 نشستوں والی پارٹی حکومتی بینچوں پر پہنچ رہی ہے جبکہ 155 نشستوں والی جماعت کو اپوزیشن میں بیٹھنے کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الٰہی نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور اسمبلی کو احسن طریقے سے چلایا، انہوں نے مزید کہا کہ اتوار کی رات لاکھوں لوگ سابق وزیراعظم عمران خان کی حمایت میں باہر نکلے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مرکز میں تبدیلی، وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے مسلم لیگ(ق) کی مشکلات میں اضافہ

ایک ایسے وقت میں جب وزیر اعظم شہباز شریف پر فرد جرم عائد کی جانی تھی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو ان نا نام ان مقدمات سے نکالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جن میں وہ ملوث تھے۔

فیاض الحسن چوہان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عمران خان کی برطرفی کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے کھربوں ڈالر نکال لیے ہیں البتہ ان کے اس دعوے کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دن کے آخر میں مسترد کردیا۔

مرکزی بینک نے ایک ٹوئٹ میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے بڑی رقم نکالنے اور آمدن میں کمی کے بارے میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی تردید کی۔

ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ اپریل میں اب تک 8 کروڑ 60لاکھ ڈالر آئے ہیں اور کوئی غیر معمولی اخراج نہیں ہے، ملکی خزانے میں اب تک آنے والی کُل رقم 4ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

پنجاب اسمبلی کے لیے لاہور ہائی کورٹ کا حکم

دریں اثنا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے پیر کو سیکریٹری پنجاب اسمبلی کو ڈپٹی اسپیکر کا دفتر کھولنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس نے یہ حکم پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں تاخیر اور اسپیکر کے اختیارات واپس لینے کے خلاف درخواستوں پر جاری کیا۔

اس سے قبل دوست محمد مزاری چیف جسٹس کی ہدایت پر ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے جو کیا وہ خالصتاً قانونی تھا لیکن اسپیکر کی ہدایت پر ان کا دفتر بند کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت کی تبدیلی، ایف آئی اے لاہور کے سربراہ چھٹیوں پر چلے گئے

دوست محمد مزاری کی جانب سے پہلے سے اعلان کردہ 16 اپریل کے بجائے 6 اپریل کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے بعد اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات واپس لے لیے تھے۔

مسلم لیگ (ق) کے وکیل عامر سعید راون نے الزام لگایا کہ اسمبلی کے قوانین اور قواعد کی خلاف ورزی پر ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات واپس لیے گئے ہیں، اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے مسلم لیگ(ق) کے وکیل کی جانب سے استعمال کی گئی توہین آمیز زبان پر اعتراض کیا۔

حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ کا عہدہ عثمان بزدار کے استعفیٰ کے بعد خالی ہوا، انہوں نے کہا کہ اسپیکر پرویز الٰہی نے 2 اپریل کو نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے بلایا گیا اسمبلی اجلاس غیر قانونی طور پر 6 اپریل تک ملتوی کر دیا تھا، بعد ازاں، اسپیکر نے ایک بار پھر غیر قانونی طور پر اجلاس 16 اپریل تک ملتوی کر دیا تھا حالانکہ ایڈووکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ میں یقین دہائی کرائی تھی الیکشن پہلے سے طے شدہ تاریخ پر کرائے جائیں گے۔

پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے باعث اجلاس ملتوی کیا گیا، انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے ایک نجی ہوٹل میں فرضی سیشن میں حمزہ کو وزیراعلیٰ منتخب کیا، یہ دعویٰ کیا کہ اس اجلاس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر نے کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چیف سیکریٹری، آئی جی پنجاب کے تقرر و تبادلے کے خلاف حمزہ شہباز عدالت پہنچ گئے

تاہم ایڈووکیٹ اعظم نذیر تارڑ نے فوری طور پر اس دعوے کی تردید کی اور عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فرضی اجلاس کی صدارت نہیں کی، انہوں نے مزید کہا کہ یہ دراصل ایک سیاسی پاور شو تھا۔

چیف جسٹس بھٹی نے ایڈووکیٹ جنرل سے سوال کیا کہ اگر اسمبلی کے باہر 10 لوگ جمع ہو جائیں تو کیا ہنگامہ آرائی کا بہانہ بنا کر اجلاس ملتوی کیا جا سکتا ہے؟۔

اسپیکر کے وکیل بیرسٹر سید علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب 16 اپریل سے پہلے ممکن نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت غیر ضروری طور پر اسمبلی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ ملک کے تشخص کے لیے اچھا نہیں تھا، انہوں نے تمام جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کریں۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ق) کی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف درخواست میں فریق بننے کی استدعا

دوپہر 2 بجے جب چیف جسٹس نے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع کی تو فریقین بغیر کسی اتفاق رائے کے واپس عدالت پہنچ گئے۔

چیف جسٹس نے ڈپٹی اسپیکر کو لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار اور سیکریٹری پنجاب اسمبلی کے ساتھ اپنے دفتر جانے کی ہدایت کی، ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات سے متعلق سوال کا فیصلہ منگل کو آئندہ سماعت پر ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں