Dawnnews Television Logo

نئی اتحادی حکومت کو درپیش معاشی مسائل

اب دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت معاشی میدان میں بھی اسی طرح کامیاب ہوتی ہے یا نہیں جیسے تحریک عدم اعتماد کو منظور کروانے میں ہوئی تھی
شائع 18 اپريل 2022 05:30pm

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی بالآخر ہو ہی گئی۔ اس تبدیلی نے جہاں بڑے پیمانے پر سیاسی، آئینی اور قانونی بحث کو جنم دیا وہیں سابقہ حکومت کی کارکردگی کو عمران خان نے وطن سے غداری اور امریکی مکتوب کی گرد میں کہیں گم کردیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حزبِ اقتدار کے لیے معیشت پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی مگر پاکستان میں جب بھی انتقالِ اقتدار ہوتا ہے تو معیشت کو کم و بیش اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ ادائیگیوں کے توازن کا ہے۔ گزشتہ 4 انتقالِ اقتدار سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب بھی نئی حکومت آتی ہے تو اسے زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر ملتے ہیں جس کی وجہ سے ہر حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑتا ہے۔ اس مرتبہ صورتحال اس لیے مختلف ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس انتخابات تک ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ نئی حکومت کو سابقہ حکومت کے آئی ایم ایف سے طے کردہ پروگرام کو بحال اور اس کو مکمل کرنا ہوگا جو لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد غیر ملکی ریٹنگ ایجنسی فِچ نے ایک تبصرہ جاری کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی حکومت سے متعلق عوامی حمایت میں کمی دیکھی گئی اور اس وجہ سے اتحادی بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ ساتھ ہی اس دوران ملک میں پیدا ہونے والے حالیہ آئینی اور قانونی بحران اور پھر سپریم کورٹ کی جانب سے دیے جانے والے فیصلے کی روشنی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو بیرون ملک سرمایہ کاروں نے مثبت انداز میں دیکھا ہے۔ اس عمل کو ملک میں قانون کی حکمرانی کو مستحکم ہونے سے تعبیر کیا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا عمل نہایت پُرامن انداز میں مکمل ہوگیا ہے‘۔

فِچ نے اس کے ساتھ ہی ایک خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ ایجنسی کے مطابق ’پاکستان میں ہونے والی سیاسی ہلچل کے دوران ملک کے بیرونی ادائیگیوں کے رسک میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان کو قلیل مدت میں بیرونی مالیاتی خطرات کا سامنا ہے اور اس خطرے میں عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافہ صورتحال کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا رہا ہے۔ نئی حکومت کے لیے اہم یہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ اور آئندہ مالی سال کے دوران واجب الادا قرضوں کو ری فنانس کرسکے اور نئے قرض بھی حاصل کرسکے‘۔

زرِمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی ادائیگیوں کے مسائل

تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ ذخائر 16 ارب 21 کروڑ ڈالر تھے جو یکم اپریل تک 11 ارب 31 کروڑ ڈالر رہ گئے۔ اس طرح سیاسی عدم استحکام کے مہینے میں زرِمبادلہ ذخائر 4 ارب 89 کروڑ ڈالر کم ہوگئے جس نے آنے والی نئی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔

فِچ کے مطابق ’آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو 20 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا ہوگی، جس میں سے سعودی عرب اور چینی قرض کے 7 ارب ڈالر بھی شامل ہیں لیکن توقع ہے کہ اس قرض کی تجدید ہوجائے گی۔ فروری سے یکم اپریل کے دوران غیر ملکی زرِمبادلہ ذخائر میں 5 ارب ڈالر کی کمی ہوچکی ہے۔ اس میں چین کے 2 ارب 40 کروڑ ڈالر کا قرض بھی واپس کیا گیا ہے اور یہ قرض دوبارہ ملنے کے امکانات موجود ہیں۔

تاہم پاکستان کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی مالیاتی مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر قرض حاصل کرنا ہوگا۔ سابقہ حکومت نے جنوری 2022ء میں ایک ارب ڈالر کا صکوک جاری کیا تھا۔ موجودہ سیاسی بحران میں پاکستان رسک پروفائل بڑھ گیا تھا اور عالمی مارکیٹ میں پاکستان کے سال 2024ء میں میچورٹی والے بانڈز کی یِلڈ 6 فیصد سے بڑھ کر 16 فیصد تک چلی گئی تھی۔ اس صورتحال میں اگر پاکستان بیرونی مالیاتی مارکیٹ میں جاتا ہے تو اس کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

نئی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کو بحال کرے تاکہ سرمائے کی منڈی تک رسائی مل سکے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جاری کھاتے کا خسارہ (کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ) ابھی تک متوقع طور پر مالی سال 2022ء میں جی ڈی پی کا لگ بھگ 4 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی

نئی حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے باقی رہ جانے والے جائزے مکمل کرنا ایک بڑا ہدف ہوگا۔ نئی حکومت کے اہم افراد نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کام جاری رکھیں گے مگر ریونیو میں اضافے اور اصلاحات کے حوالے سے مذاکرات طویل اور صبر آزما ثابت ہوں گے۔ مارچ میں ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی نے پہلے ہی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں۔

پاکستان نے مالی سال 2019ء میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلیٹی (ای ایف ایف) پروگرام شروع کیا تھا۔ 6 ارب ڈالر معاونت کے اس پروگرام سے اب تک پاکستان کو 3 ارب ڈالر کا قرض مل چکا ہے اور باقی 3 ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر مذاکرات کرنا ہوں گے۔

حکومت کو بقیہ قرض کے حصول کے لیے سخت شرائط پر مذاکرات کرنے ہوں گے—تصویر: رائٹرز
حکومت کو بقیہ قرض کے حصول کے لیے سخت شرائط پر مذاکرات کرنے ہوں گے—تصویر: رائٹرز

توانائی کا شعبہ

نئی حکومت کے لیے بجلی کے شعبے میں اصلاحات سب سے بڑ اچیلنج ہوگا کیونکہ مہنگی بجلی کی وجہ سے عوام پہلے ہی پریشان ہے اور عالمی سطح پر ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے ہر مہینے بلوں میں اضافی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔ بجلی کے شعبے میں موجود گردشی قرضہ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرض تقریباً 2500 ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ یعنی گردشی قرضہ ملکی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔

پاکستان میں بجلی کی قیمت گزشتہ دورِ حکومت میں تیزی سے بڑھائی گئی مگر بجلی کے شعبے میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو بلوں کی ادائیگی کے باوجود بجلی کی فراہمی میں تعطل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے توانائی کے شعبے میں سبسڈی بڑا چیلنج ہے۔ سابق وزیرِاعظم نے بجلی کے بلوں میں 5 روپے فی یونٹ کی کمی کی اور اس کمی کو بلوں پر وزیرِاعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے عوام کے لیے تحفے کے طور پر تحریر کیا گیا۔ اس سے عوام کو ریلیف تو حاصل ہوا مگر اب یہ ریلیف نئی حکومت کے لیے گلے میں پھنسی ایک ہڈی بن گیا ہے اور اس کو واپس کرنا نئی حکومت کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج ہوگا۔

گزشتہ حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت تو کم کردی گئی تھی مگر بجلی کے پیداواری عمل کو برقرار نہ رکھا جاسکا۔ حکومت گئی تو پتا چلا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر بجلی کے پیداواری یونٹس بند پڑے ہیں جس سے عوام کو سستی کی گئی بجلی پہنچ ہی نہیں رہی ہے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق بجلی کے 18 یونٹس فنی خرابیوں کی وجہ سے ایک سال سے بند پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ایندھن کی قلت کی وجہ سے 7 پاور پلانٹس بند ہیں۔ ان پاور پلانٹس کی مجموعی پیداواری صلاحیت تقریباً 6 ہزار میگا واٹ ہے۔ پاور پلانٹس کو بروقت ایندھن کی عدم فراہمی یعنی کوئلے اور آر ایل این جی کی عدم خریداری کی وجہ سے سستی بجلی بنانے والے پلانٹس بند پڑے ہیں۔ اس کے بجائے حکومت مہنگے ترین ایندھن کے ذرائع سے بجلی پیدا کررہی تھی۔

حکومت گئی تو پتا چلا کہ ملک میں بجلی کے کئی پیداواری یونٹس بند پڑے ہیں— تصویر: اے ایف پی/فائل
حکومت گئی تو پتا چلا کہ ملک میں بجلی کے کئی پیداواری یونٹس بند پڑے ہیں— تصویر: اے ایف پی/فائل

بجلی کے علاوہ عمران خان نے پاکستان پیپلزپارٹی کے لانگ مارچ کے شروع ہوتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی فی لیٹر قیمت میں 10 روپے کی کمی کی تھی۔ پاکستان میں تو ایندھن کی قیمت کم کردی گئی مگر بین الاقوامی مارکیٹ میں ایندھن مہنگا ہوتا رہا۔ اس کی وجہ سے نئی اتحادی حکومت مسائل میں گھری ہوئی ہے۔

اوگرا نے حکومت کو 2 سمریاں ارسال کی تھیں جس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت 51 روپے سے زائد اور دوسری سمری میں 119 روپے فی لیٹر تک اضافے کی سفارش کی گئی تھی۔ اوگرا کی پہلی تجویز میں جی ایس ٹی اور لیوی صفر سطح پر برقرار رکھتے ہوئے ڈیزل 51 روپے 52 پیسے اور پیٹرول 21 روپے 30 پیسے فی لیٹر تک مہنگا کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ جبکہ دوسری سمری میں ڈیزل 119 روپے 88 پیسے اور پیٹرول 83 روپے 30 پیسے فی لیٹر تک مہنگا کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس اضافے میں پیٹرولیم لیوی 30 روپے اور جی ایس ٹی کو 17 فیصد رکھا گیا تھا۔

اس اضافے کا فیصلہ نئی حکومت کے لیے کسی سیاسی خودکشی سے کم نہ تھا۔ اگر حکومت اضافہ نہیں کرتی تو اس سبسڈی کو ادا کرنے کی صلاحیت حکومت کے پاس نہیں ہے۔ دوسری صورت میں حکومت کو مالیاتی خودکشی کا سامنا ہوتا تاہم حکومت نے فی الحال قیمتوں کو برقرار رکھنے کا ہی فیصلہ کیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس طرح وفاقی بجٹ خسارے کا ہدف 3500 ارب سے بڑھ کر 4500 ارب تک جاسکتا ہے۔

اوگرا کی سمری میں پیٹرول کی قیمت میں 83 روپے سے زائد کی سفارش کی گئی تھی—فائل فوٹو
اوگرا کی سمری میں پیٹرول کی قیمت میں 83 روپے سے زائد کی سفارش کی گئی تھی—فائل فوٹو

اجناس کی عالمی منڈی اور پاکستان

عالمی سطح پر ایندھن اور دیگر اجناس کے مہنگا ہونے سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافے کا سبب بنے گا جبکہ ملک کو بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے بڑے پیمانے پر زرِمبادلہ کی ضرورت ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 5.6 فیصد یا 18 ارب 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ اگر ایندھن کی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 4 فیصد کی سطح تک آسکتا ہے۔ پہلے کورونا کے بعد عالمی معیشت کھلنے اور پھر روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کے علاوہ دیگر اجناس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق گزشتہ سال غذائی اجناس کی قیمتوں میں 23.1 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا تھا اور اس اضافے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ روس-یوکرین جنگ کے وقت یعنی 24 فروری کو عالمی منڈی میں گندم اور مکئی 130 ڈالر اور چاول 110 کی سطح پر تھے جبکہ جنگ کے بعد گندم کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا کیونکہ دنیا کی گندم کی برآمد میں سب سے بڑا حصہ روس اور یوکرین کا ہے۔ یوں گندم کی قیمت 200 ڈالر کے قریب پہنچ گئی تھی۔ بعد ازاں گندم کی قیمت کم ہوکر 150 ڈالر آگئی ہے، چاول کی قیمت 130 ڈالر اور مکئی 140 ڈالر کی سطح پر آگئی ہے۔

ان اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا عمل جاری رہے گا۔ چاول، مکئی اور گندم پاکستان کی بڑی فصلیں ہیں مگر سابقہ حکومت کے دور میں ملک میں آٹے کی قیمت بڑھنے اور ممکنہ قلت کی وجہ سے گندم بڑے پیمانے پر درآمد کی گئی ہے۔ گندم کے موجودہ سیزن میں بمپر فصل کی توقع ہے اور عالمی سطح پر گندم کی مہنگائی سے پاکستان کو خلیجی ملکوں میں آٹے اور دیگر مصنوعات کو برآمد کرنے کے اچھے مواقع دیکھے جارہے ہیں۔

عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے—فائل فوٹو
عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے—فائل فوٹو

افراطِ زر یا مہنگائی

اوپر بیان کیے گئے تمام اقدامات اور وجوہات سے جو چیز عوام کے سامنے آتی ہے، وہ ہے افراطِ زر یا مہنگائی۔

سال 2018ء میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی اور عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان اکنامک سروے کے مطابق مہنگائی کی شرح 5.2 فیصد تھی۔ مگر تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے دوران مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوا۔

تحریک انصاف کی حکومت کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 10 فیصد سے زائد رہی اور اب تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کے بعد جو نئی اتحادی حکومت قائم ہوئی ہے اس کو ورثے میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد ملی ہے۔ مگر بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں اور ملک میں مہنگائی کی شرح 15 فیصد تک ہے۔ اس مہنگائی کو کم کرنے کے لیے کاوشیں کرنا موجودہ حکومت کی اوّلین ترجیحات میں سے ایک ہونا چاہیے۔

مہنگائی کو قابو میں رکھنا مرکزی بینک کی ذمہ داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے فوری بعد اسٹیٹ بینک نے ہنگامی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس طلب کرتے ہوئے بنیادی شرح سود 12 فیصد سے زائد مقرر کردی ہے۔ مگر ماہرین کا خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود میں اضافے سے عوام پر مالی بوجھ پڑتا ہے۔ عوام ایک طرف مہنگائی سے نمٹ رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف بنیادی شرح سود بڑھنے سے معاشی سست روی کا شکار ہوتے ہیں اور ملازمت کے مواقع کم ہوجاتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے اپنے مانیٹری پالیسی بیان میں موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ ملکی اور عالمی حالات کے نتیجے میں اوسط مہنگائی میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے موجودہ مالی سال کے دوران اوسط مہنگائی 11 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے موجودہ مالی سال کے دوران اوسط مہنگائی 11 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے
اسٹیٹ بینک نے موجودہ مالی سال کے دوران اوسط مہنگائی 11 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی ہے

معاشی شرح نمو

ورلڈ بینک کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی معاشی شرح نمو میں کمی کا امکان ہے اور رواں سال پاکستان کی معاشی شرح نمو 4.3 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سال پاکستان کی شرح نمو 5.6 فیصد رہی۔ جبکہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان موجودہ مالی سال کے دوران 4.4 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گا۔

پاکستان کی آبادی تقریباً 3 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اس وجہ سے معاشی شرح نمو معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ موجودہ حکومت کو معاشی شرح نمو 6 سے 7 فیصد لے جانا ہوگی مگر مستحکم بنیادوں پر۔ ایسا نہ ہو کہ ایک سال معاشی ترقی کے حوالے سے اچھا گزرے اور پھر بعد کئی سال اس اچھائی کے اثرات کو برداشت کرنے میں نکل جائیں۔

پاکستان میں اس وقت ایک اتحادی حکومت قائم ہے جس کو فوری طور پر یعنی ڈیڑھ سال یا اس سے بھی کم عرصے میں انتخابات کا سامنا کرنا ہے۔ دوسری جانب مہنگائی، ملکی مالیات، زرِمبادلہ ذخائر، بیرونی قرضوں کی ادائیگی جیسے اہم مسائل بھی نئی حکومت کے سامنے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے مذاکرات میں نئی حکومت کو کچھ رعایت ملتی ہے اور چین کی جانب سے سی پیک کو بحال کردیا جاتا ہے تو پھر پاکستان اس قلیل مدت کے معاشی بحران پر قابو پاسکتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت معاشی میدان میں بھی اسی طرح کامیاب ہوسکتی ہے یا نہیں جیسا وہ تحریک عدم اعتماد کو منظور کروانے میں کامیاب ہوئی تھی۔


راجہ کامران شعبہ صحافت سے 2000ء سے وابستہ ہیں۔ اس وقت نیو ٹی وی میں بطور سینئر رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔