پنجاب کے اساتذہ کو اداروں کےخلاف جاری سوشل میڈیا مہم سے دور رہنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2022
پنجاب حکومت نے ہدایت کی ہے کہ اساتذہ ریاستی اداروں کے خلاف جاری مہم سے دور رہیں— فائل فوٹو: رائٹرز
پنجاب حکومت نے ہدایت کی ہے کہ اساتذہ ریاستی اداروں کے خلاف جاری مہم سے دور رہیں— فائل فوٹو: رائٹرز

سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے منع کرنے کی اپنی سابقہ ​​پالیسی جاری رکھتے ہوئے حکومت پنجاب نے اسکول کے اساتذہ کو سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روک دیا ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف جاری مہم سے دور رہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کا ساتھ دینے سے گریز کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اسکول ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن نے تمام ڈویژنل ڈائریکٹرز (ایلیمنٹری ایجوکیشن) اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز کے تمام چیف ایگزیکٹو افسران کو سرکاری ملازمین کی جانب سے سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ہدایات جاری کی ہیں۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کی ریاستی اداروں کے خلاف آن لائن مہم چلانے والوں کےخلاف کارروائی، 8 افراد گرفتار

کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں محکمہ اسکول ایجوکیشن پنجاب ذمہ دار اساتذہ کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔

پنجاب اسکول ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ آف پبلک انسٹرکشن نے 13 اپریل کو ایک خط جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تمام تعلیمی حکام اپنے ملازمین پر نظر رکھیں، احکامات کی خلاف ورزی کرنے والے ملازمین کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

اس سے قبل پنجاب حکومت نے اکتوبر 2021 میں اپنے تمام ملازمین پر سوشل اور روایتی میڈیا کے استعمال پر پابندی لگانے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سروس کے قواعد کے خلاف ہے۔

نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا تھا کہ قواعد کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم پر حکومت کی واضح اجازت کے بغیر شرکت نہیں کر سکتا۔

سروس رولز کا رول 18 کسی سرکاری ملازم کو سرکاری معلومات یا دستاویزات کسی سرکاری ملازم یا کسی نجی شخص یا میڈیا کے ساتھ شیئر کرنے سے روکتا ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ اسی قوانین کے رول 22 میں کسی سرکاری ملازم کو حقیقت یا رائے کا حامل کوئی بھی ایسا بیان دینے سے منع کیا گیا تھا جو کسی بھی دستاویز میں شائع ہونے یا میڈیا کو کی گئی کسی بھی بات چیت یا کسی بھی عوامی بیان یا ٹیلی ویژن پروگرام یا ریڈیو براڈکاسٹ پر نشر کیا جا سکے اور حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہو۔

مزید برآں رولز 21، 25، 25-اے اور 25-بی کسی سرکاری ملازم کو پاکستان کے نظریے اور سالمیت یا کسی حکومتی پالیسی یا فیصلے کے خلاف خیالات کا اظہار کرنے سے روکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘فوج اور سوسائٹی ’میں تقسیم سے متعلق پروپیگنڈا مہم کا نوٹس

اس کے علاوہ قوانین سرکاری ملازمین کو کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم پر ایسے خیالات کے اظہار سے بھی روکتے ہیں، جو یا تو قومی سلامتی یا غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں یا عوامی نظم، شائستگی یا اخلاقیات کو مجروح کرنے کا سبب بنیں؛ یا توہین عدالت یا ہتک عزت یا جرم پر اکسائیں؛ یا فرقہ ورانہ عقائد کا پرچار کریں۔

نوٹی فکیشن میں مزید کہا گیا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین اکثر سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز بشمول فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ، انسٹاگرام وغیرہ پر بہت سے موضوعات پر اپنے خیالات کو نشر کرنے میں مصروف رہتے ہیں، بعض اوقات ایسے اعمال یا طرز عمل میں ملوث ہوتے ہیں جو سرکاری طرز عمل کے مطلوبہ معیارات کے مطابق نہیں، جیسا کہ قواعد میں بیان کیا گیا ہے۔

'اساتذہ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں'

دریں اثنا لاہور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو افسر پرویز اختر نے ہفتہ کو ڈان کو بتایا کہ اساتذہ کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ تعلیمی امور کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا کوئی پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کے خلاف مہم جاری ہے اور سرکاری ملازمین کو ریاست کے خلاف پروپیگنڈے میں ملوث نہیں ہونا چاہیے، اساتذہ ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عوامی سطح پر اپنے سیاسی خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ذاتی طور پر تعلیمی مقاصد کے علاوہ سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کی حمایت کرتا ہوں۔

پرویز اختر نے مزید وضاحت کی کہ اساتذہ بھی سوشل میڈیا پر اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار نہیں کر سکتے، انہیں اسے اپنی ذات تک رکھنا چاہیے اور عوامی پلیٹ فارمز پر غیر جانبدار رہنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان کے مختلف اداروں اور شخصیات کیخلاف منظم مہم چلائی جارہی ہے'

مزید برآں پنجاب ٹیچرز یونین کے رہنما رانا لیاقت نے ڈان کو بتایا کہ اساتذہ کو سوشل میڈیا پر کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا تنقید کرنے سے روک دیا گیا ہے اور یونین نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ سروس رولز سرکاری ملازمین کو عوامی طور پر اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار کرنے سے روکتے ہیں لیکن وہ جسے بھی چاہیں ووٹ دینے کا حق رکھتے ہیں، سیاسی کارکن ریاستی اداروں پر تنقید کر رہے ہیں لہٰذا ہدایات دی گئی ہیں کہ اساتذہ اس پروپیگنڈے کا حصہ نہ بنیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سرکاری حکم نے انہیں اپنے مسائل کے بارے میں بات اور معیار تعلیم کے حوالے سے خیالات کے اظہار سے نہیں روکا، یہ خاص طور پر سوشل میڈیا پر کسی سیاسی بحث میں شامل نہ ہونے کے بارے میں ہے جس میں کسی بھی سیاسی جماعت اور ریاستی اداروں کی حمایت یا انہیں تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔

'اساتذہ کو حکم کی مذمت کرنی چاہیے'

تاہم ماہر تعلیم ڈاکٹر پرویز ہودبھائی نے اساتذہ پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ان احکامات پر عمل درآمد کے لیے اسے پولیس اسٹیٹ بنانا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: 'تنقیدی ٹوئٹس' کرنے پر گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

انہوں نے کہا کہ لاکھوں لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو چیک کرنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا ناممکن ہوگا، صرف ایک فاشسٹ ریاست ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال کو روکنے کے لیے اپنی طاقت استعمال کر سکتی ہے۔

پرویز ہودبھائی نے مزید کہا کہ اساتذہ کو فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے اور کسی کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں