یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے ٹیکس وصولی غیر قانونی اور فرسودہ قرار

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2022
عدالت نے کہا کہ ٹیکس کے متعین اور طے شدہ طریقہ کار کی عدم موجودگی میں بقایاجات کی وصولی غیر قانونی ہے — فائل فوٹو: ڈان
عدالت نے کہا کہ ٹیکس کے متعین اور طے شدہ طریقہ کار کی عدم موجودگی میں بقایاجات کی وصولی غیر قانونی ہے — فائل فوٹو: ڈان

لاہور ہائی کورٹ نے یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے ٹیکس کی وصولی کو غیر قانونی اور اس عمل کو انتہائی فرسودہ قرار دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس شاہد جمیل خان نے متعدد صنعتوں کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ خصوصی طریقہ کار ٹیکس کی وصولی کے بارے میں خاموش ہے جس کو قدرتی گیس کی فراہمی کے لیے ڈسٹری بیوشن کمپنی وصول نہیں کرتی۔

مزید پڑھیں: بجلی کمپنیوں کو اپریل میں 41 ارب 70 کروڑ روپے وصولی کی اجازت

صنعتوں نے قدرتی گیس کے یوٹیلیٹی بلوں میں ٹیکس بقایاجات وصول کرنے کے خلاف بلوں میں درج کالم ’بقایاجات‘ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹیکس کے متعین اور طے شدہ طریقہ کار کی عدم موجودگی میں بقایاجات کی وصولی غیر قانونی ہے۔

اپنے فیصلے میں جسٹس شاہد جمیل خان نے مشاہدہ کیا کہ قدرتی گیس پر سیلز ٹیکس کی وصولی اور ادائیگی کے لیے خصوصی طریقہ کار سیلز ٹیکس اسپیشل پروسیجر رولز 2007 کے باب چار میں فراہم کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ رول 20 قدرتی گیس فراہم کرنے والے شخص پر سیلز ٹیکس وصول کرنے اور ادا کرنے کی ذمہ داری عائد کرتا ہے، اس کے ذیلی اصول سی (2) کے تحت گیس کی ترسیل اور تقسیم کار کمپنی قدرتی گیس کی فراہمی پر سیلز ٹیکس وصول، جمع اور ڈیپازٹ کرنے کی ذمہ دار ہے۔

تاہم جج نے نوٹ کیا کہ بقایاجات کے عنوان سے جس کالم کے ذریعے ٹیکس بقایاجات کی وصولی کی جاتی ہے، وہ قدرتی گیس کی فراہمی کے بقایاجات کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا کراچی میں بجلی کے بل کے ذریعے دو الگ ٹیکس وصول کرنے کا منصوبہ

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر خصوصی طریقہ کار میں ترمیم کے بعد قانون ٹیکس کے بقایا جات کی وصولی کا بلوں کے ذریعے اختیار دیتا ہے، تو یہ ایک آزاد کالم کے ذریعے ہونا چاہیے جس سے ظاہر ہو کہ یہ بقایاجات ٹیکس کے ہیں۔

جسٹس شاہد جمیل خان فیصلے میں لکھتے ہیں کہ کسی قانونی اختیار کے بغیر یہ قابل اعتراض عمل دھوکا دینے کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریکوری کے لیے تفصیلات اور ضروری معلومات کا مکمل افشا کرنا اب آئین کے آرٹیکل 19-اے کے تحت بنیادی حق ہے، لہٰذا غیر قانونی عمل کو انتہائی فرسودہ اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

جج نے کہا کہ چونکہ ڈسٹری بیوشن کمپنی کی جانب سے وصول نہ کیے جانے والے ٹیکس کی وصولی کا کوئی خاص طریقہ کار نہیں ہے، اس لیے یوٹیلٹی بلز کے ذریعے ٹیکس بقایاجات کی وصولی کو قانونی اختیار کے بغیر قرار دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹیکس کا تعین قانون کے مطابق کیا جاتا ہے اور ہدایات جاری کی جاتی ہیں تو قانون کے تحت یوٹیلٹی بل کے ذریعے کسی بھی ٹیکس کی وصولی کے لیے بل جاری کرنے والی اتھارٹی کو خود کو مطمئن کرنا ہوگا کہ ہدایت ایک حکم پر مبنی ہے، ٹیکس کا تعین مجاز افسر کے ذریعے کیا گیا ہے اور قابل وصولی ٹیکس کی تفصیلات مکمل طور پر ظاہر کی جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: بجلی کےبل میں کے ایم سی ٹیکس کا معاملہ، وفاق اور سندھ حکومت آمنے سامنے

جسٹس اشہد جمیل خان نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے رکن (پالیسی) کو ہدایت کی کہ وہ تمام یوٹیلٹی فراہم کرنے والوں کو یہ وضاحت جاری کریں کہ ٹیکس کے بقایاجات یوٹیلٹی بلوں میں مخفی رکھ کر وصول نہیں کیے جاسکتے، جیسا کہ اس کیس میں کیا گیا ہے۔

جج نے حکم کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کرتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ یوٹیلٹی بل میں ایک خصوصی انٹری ہونی چاہیے جس میں ٹیکس بقایاجات کی نوعیت کو ظاہر کیا جائے، جو کمشنر مقررہ خصوصی یا عام طریقہ کار کے تحت طے کرتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں