لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

'اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو میں پارلیمنٹ میں جاکر خود کو دھماکے سے اڑا لیتا'، یہ بات پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایک ابھرتے ہوئے رہنما شہریار آفریدی نے کوہاٹ میں اپنے حلقے میں تقریر کرتے ہوئے پشتو زبان میں کہی تھی۔

اوپر آپ نے جو جملے پڑھے ہیں یہ 3 ہفتے قبل لکھے گئے میرے کالم کا ابتدائیہ تھے۔ اس وقت کے بعد سے حالات نے ہمیں بتایا کہ یہ کسی ایسے قائد سے اس کے پُرجوش حامی کی محبت کا اظہار نہیں تھا جو قومی اسمبلی میں اکثریت کا اعتماد کھو چکا ہو۔ یہ تو دراصل پی ٹی آئی میں پائے جانے والے جذبات تھے۔

سابق وزیر فواد چوہدری پی ٹی آئی، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جنرل مشرف کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور ان کے دوست ان کے 'لبرل' اقدار کی قسم کھاتے ہیں۔ انہوں نے ہفتے کے روز ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم ایک خانہ جنگی کے دہانے پر ہیں، عمران خان نے بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے اور بہت جلد وہ بھی ناراض ہجوم کو روکنے کے قابل نہیں رہیں گے پھر ہم ملک کو خانہ جنگی کی طرف جاتا دیکھیں گے اور امپورٹڈ لیڈر ملک چھوڑ نہیں سکیں گے'۔

مزید پڑھیے: اعصاب کی جنگ اور دورِ عمران کا اختتام

ان کی جماعت کے سینئر افراد جو قومی اسمبلی کے محافظ تھے، ان کی جانب سے آئین کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاتی رہیں اور وہ اپنے لیڈر کی اندھی تقلید کرتے رہے۔ لیکن اسی دوران اپنی جماعت کے قائد کے قریبی مشیر سمجھے جانے والے فواد چوہدری بھی مارشل لا کا ذکر کرتے نظر آئے۔

جس مارشل لا یا سیاسی عدم استحکام کی دھمکی دی گئی ہے وہ پاکستان کی تباہ حال معیشت کو اس سے زیادہ نقصان پہنچائے گی جو شاید ان کی جماعت کی بدانتظامی سے پہنچا ہو۔ یہ دھمکی اس عدم اعتماد کے ووٹ کے پس منظر میں دی گئی ہے جو دیگر جمہوریتوں میں کوئی خلافِ معمول بات نہیں ہے۔

اس کی تازہ ترین مثال 2018ء میں دیکھنے میں آئی جب اسپین میں ماریانو راجوئے کی کنزرویٹو حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹا دیا گیا۔ ان کی اہم اتحادی جماعتوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور یوں سوشلسٹ وزیرِاعظم پیڈرو سینچیز 4 ووٹوں کی اکثریت سے منتخب ہوئے۔ انہیں 350 میں سے 176 ووٹوں کی ضرورت تھی اور انہوں نے 180 ووٹ حاصل کیے۔

گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ ہم سب نے دیکھا جبکہ جو کچھ وزیرِاعظم ہاؤس میں ہوا وہ ہم نے نہیں دیکھا۔ لیکن مخالفت اور مزاحمت کا بلبلہ آدھی رات کے قریب پھٹ گیا۔ جب سپریم کورٹ اپنا فیصلہ نافذ کروانے کے موڈ میں نظر آئی تو عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ ہوئی اور جمہوریت غالب آگئی۔

ہفتے کے روز پنجاب اسمبلی میں بھی کچھ اسی قسم کے مناظر دکھائی دیے جب اقلیت کہلائے جانے والے اراکین اکثریت کی مرضی چلنے نہیں دے رہے تھے۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب کروانے والے ڈپٹی اسپیکر پر بھی حملہ کیا گیا۔

مزید پڑھیے: پاکستان کے جمہور ہی آئین کے حقیقی نگہبان ہیں

میں جس وقت یہ سطور تحریر کررہا ہوں تو اسمبلی ہال میں قیامت مچی ہوئی ہے۔ نہ ہی سارجنٹ ایٹ آرمز اور نہ ہی اسپیکر کی جانب سے بلائی گئی اضافی سیکیورٹی ان ممبران کو قابو کر پارہی ہے جو مشرف دور میں پنجاب کے ایک مضبوط سیاستدان چوہدری پرویز الٰہٰی کی حزیمت کو بزور بازو روکنا چاہتے تھے۔

اتفاق دیکھے کہ میں جس دوران یہ مناظر دیکھ رہا تھا تو اسی دوران میری بیٹی جو تاریخ کے مضمون کے امتحان کی تیاری کررہی تھی وہ اپنی والدہ سے گزشتہ صدی کے نصف اوّل میں جرمن پارلیمنٹ رایخسٹیگ میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بات چیت کررہی تھی۔

ان دونوں چیزوں کے خیال سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ فواد چوہدری کی طرف سے دی جانے والی دھمکیاں یا ان کے قائد کی جانب سے اپنے منحرف اراکین اور یہاں تک کہ ان کے بچوں کے حوالے سے بھی عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنے کی تنبیہہ سیاسی بیان سے بالکل مختلف صورت اختیار کرگئی۔

لیکن دنیا کو دوسری عالمی جنگ ہولوکاسٹ کی جانب لے جانے والے واقعات تھوڑی ہی دیر میں ذہن سے اوجھل ہوگئے۔ پاکستان اپنے کچھ اہم رہنماؤں کے فاشسٹ رجحانات کے باوجود بھی ایک جمہوریت ہے۔ یہ جمہوریت جیسی بھی ہے، فتح اسی کی ہونی ہے۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے قانون کی عملداری کو یقینی بنانا چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسے یقینی بنایا بھی جائے گا۔

پی ٹی آئی کو وہی کچھ کرنے کی تجویز دی جائے گی جو وہ بہترین طریقے سے کرتی ہے یعنی پُرامن مظاہرے کرے اور اپنا مقدمہ براہِ راست عوام کے پاس لے جائے۔ پشاور اور کراچی کے جلسوں نے عوام میں پی ٹی آئی کی حمایت ظاہر کردی ہے اور پی ٹی آئی کو اب اسے مزید مستحکم کرنا ہوگا۔

ملک میں اس وقت کئی لاکھ نئے ووٹر بھی ہیں۔ انہیں کوئی بھی متوجہ کرسکتا اور عمران خان اس کام کے لیے بہترین ہیں۔ ان ووٹروں میں سے اکثر ان کی بدانتظامی کو تو یاد نہیں رکھیں گے لیکن 'بیرونی سازش' اور 'امپورٹڈ حکومت' کے بیانیے کو قبول کرلیں گے چاہے وہ کتنا ہی کھوکھلا کیوں نہ ہو۔

پی ٹی آئی کی جانب سے عوامی قوت کے اظہار کا اثر حکومت پر بھی پڑنا شروع ہوگیا ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ رد کردیا ہے جبکہ معیشت کو چلانے کے ذمہ دار مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اس سبسڈی سے ملک کو روزانہ 2 ارب 50 کروڑ روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے افراطِ زر میں ہونے والے اضافے پر تشویش قابلِ فہم ہے۔ کیونکہ اس طرح ان لاکھوں غریب اور بے کس لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جو دن میں بمشکل ایک وقت کی ہی روٹی کا بندوبست کرپاتے ہیں۔

مزید پڑھیے: نئی حکومت کے لیے ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘

تاہم حکومت کو چاہیے کہ معاشی پالیسی میں غریبوں کو ریلیف دینے کے ساتھ ساتھ خسارے کی کمی کے لیے بھی اقدامات کرے ورنہ ملک اس سبسڈی سے پیدا ہونے والی مشکلات میں پھنس کر رہ جائے گا۔

یہ حکومت کے لیے بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس حکومت کے پاس مکمل مدت نہیں ہے کہ یہ ابتدا میں مشکل اقدامات اٹھائے اور معاشی استحکام کے بعد اپنی مدت کے نصف آخر میں اپنے ووٹروں کو ریلیف دینا شروع کرے۔

آزاد مبصرین یہ ضرور کہیں گے کہ کسی نے بھی اس حکومت کو دعوت نہیں دی تھی۔ فوج کے ترجمان نے جس چیز کو 'غیر سیاسی' کردار بتایا ہے انہوں نے اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا۔ اب اگر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے تو پھر اس کا ذمہ دار کسی اور کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔


یہ مضمون 17 اپریل 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Amir choudhary Apr 18, 2022 12:48pm
G