لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

عمران خان کو شدید نقصان تو پہنچا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک ہار نہیں مانی ہے۔ اس بات پر لوگوں کا اس وقت اتفاق ہوگیا جب سے عمران خان نے وزیرِاعظم ہاؤس چھوڑ کر جلسہ گاہوں کو اپنا مسکن بنایا ہے۔

اسلام آباد اور اس کے باہر ہونے والے سیاسی مباحث کا موضوع شہباز شریف کی نئی حکومت نہیں ہے جسے نہ صرف اپنی قوت کو مجتمع رکھنے میں مشکل پیش آرہی ہے بلکہ ابھی کابینہ کے حوالے سے بھی ابہام موجود ہیں۔ ان سیاسی مباحث کا مرکز دراصل عمران خان اور ان کی آواز پر لبیک کہنے والے عوام کی بڑی تعداد ہے۔

کچھ حوالوں سے یہ ساری صورتحال پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ابتدائی دنوں کی یاد دلاتی ہے جب اپوزیشن جماعتیں ملک بھر میں جلسے کررہی تھیں۔ اس وقت نواز شریف بھی ان لوگوں کو نام لے کر بُرا بھلا کہتے تھے جنہیں وہ اپنی نااہلی اور 2018ء کے انتخابات میں شکست کا ذمہ دار تصور کرتے تھے۔ اس وقت بھی توجہ اسی بات پر ہوتی تھی کہ جلسے میں کتنے لوگ ہیں اور یہ کہ نواز شریف کیا کہنے والے ہیں یا کیا نہیں۔ ان دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سینیئر قیادت سے ان کے بیانیے اور ان کے قائد کی تقریروں کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ یہی کہتے تھے کہ وہ لندن میں موجود ہونے کے باوجود ملک کے سیاسی منظرنامے پر غالب ہیں۔

مزید پڑھیے: کیا حکومت پر پی ٹی آئی کے جلسوں کا دباؤ پڑنے لگا ہے؟

دراصل یہ ہمارے سیاسی منظرنامے کا ایک جز ہے کہ اپوزیشن میں رہنے والا جب تک غصے میں رہے اور شور شرابا کرتا رہے تو وہ سیاسی منظرنامے پر غالب رہتا ہے۔ یہی کچھ ان دنوں عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے۔

اس جارحانہ مزاج کا تعلق اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ کسی حکومت کو کس طرح بے دخل کیا گیا۔ کسی بھی جماعت کے لیے اپنی حمایت واپس حاصل کرنے کے لیے کسی جوڑ توڑ کا معمولی سا اشارہ یا الزام بھی کافی ہوتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی سے، 2018ء میں مسلم لیگ (ن) اور اب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) تک ہم یہی رجحان دیکھ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے نے عوام میں اس کی حمایت بڑھا دی ہے۔ اگر پی ٹی آئی مزید ایک سال اقتدار میں رہ کر انتخابات کا حصہ بنتی تو اس کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔

تاہم یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے آخری دنوں میں رائے عامہ کے جائزوں سے عمران خان کی مقبولیت میں کچھ کمی تو نظر آئی تھی لیکن وہ کمی اتنی نہیں تھی جتنی عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔ صوبوں میں عوام کے انتخاب کے حوالے سے پی ٹی آئی پہلے یا دوسرے نمبر پر ہی رہی۔

رواں سال جنوری میں انسٹیٹوٹ آف پبلک اوپینین ریسرچ کا ایک سروے دی نیوز میں شائع ہوا۔ اس سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں مقبولیت کے لحاظ سے پی ٹی آئی 44 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر تھی جبکہ جے یو آئی (ف) کی مقبولیت 17 فیصد تھی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) 46 فیصد مقبولیت کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ پی ٹی آئی عثمان بزدار کے ساڑھے 3 سالہ دورِ حکومت اور مہنگائی کے بعد بھی 31 فیصد مقبولیت کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھی۔ سروے کے مطابق پنجاب میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت صرف 5 فیصد تھی۔ لیکن اب 3 ماہ بعد اور اقتدار سے بے دخل ہوکر شاید عمران خان نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کرلیا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن جو اب حکومت بن چکی ہے اس حوالے سے پریشان ہے۔ ساتھ ہی وہ دیگر لوگ بھی پریشان ہیں جنہوں نے اس بے دخلی میں کردار ادا کیا۔ غیر حاضریوں سے لے کر طویل پریس کانفرنسوں تک اور معززین سے ملاقاتوں تک، علامات تو واضح ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے ثبوت ناکافی ہیں لیکن پھر بھی فیصلہ کرنے والے اپنا ذہن بنا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیے: نئی اتحادی حکومت کو درپیش معاشی مسائل

مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پیٹرول کی قیمتوں کو برقرار رکھا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے اس کے اعلان کے بعد سے مسلم لیگ (ن) اس پر شدید تنقید کرتی رہی ہے۔ تاہم ان کے اپنے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قیمتوں کو برقرار رکھنے کا یہ قدم عارضی ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کئی چیزوں کے لیے سودے بازی کررہی ہے لیکن اس نے وزارتِ خزانہ نہیں مانگی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرح مسلم لیگ (ن) بھی اکیلے ہی اس کا بوجھ اٹھائے۔

تاہم اپوزیشن [موجودہ حکومت] کو اس بات سے حوصلہ مل سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کی طرح عمران خان بھی تھک جائیں گے۔ جلسوں اور تقریروں کی سیاست ماند پڑتی جارہی ہے اور یہ اپنے طور پر انتخابات کے انعقاد پر زور نہیں دے سکتے۔ لیکن یہ مکمل طور پر اچھی خبر نہیں ہے۔ شہباز شریف جتنا زیادہ عرصہ حکومت کریں گے عمران خان کے لیے صورتحال اتنی ہی بہتر ہوتی جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتی معاملات اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر ضرور اثرانداز ہوں گی۔ اس وقت تو ہر فیصلہ اور ہر راستہ نئے انتخابات کی جانب جاتا ہوا ہی نظر آرہا ہے۔

اگرچہ مولانا صاحب خیبر پختونخوا میں عوام کے رجحان کے حوالے سے بہت زیادہ فکرمند ہوں گے لیکن یہ صورتحال دیگر جماعتوں سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کے لیے پریشان کن ہوگی۔

اگر موجودہ صورتحال کو انتخابی حوالے سے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی بالترتیب سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اکثریت میں نظر آتی ہیں۔ اگر خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے سے کسی قسم کے شبہات پیدا ہوئے تھے تو دوسرے مرحلے کے نتائج سے وہ دُور ہوگئے ہیں۔ یہاں اگلے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو میدان مارنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کے حوالے سے یہی صورتحال ہے۔

مزید پڑھیے: نئی حکومت کے لیے ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘

یعنی جنگ کا اصل میدان تو پنجاب ہوگا جہاں مسلم لیگ (ن) وسطی پنجاب میں اپنی اجارہ داری رکھتی ہے۔ تاہم ہمیشہ کی طرح شمالی اور جنوبی پنجاب ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ اسلام آباد تک کون سی جماعت پہنچے گی۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) کو کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یہاں اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنے تمام تر حکومتی ریکارڈ کے باوجود پنجاب میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے یا نہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کی جماعت کو پنجاب میں بس اپنا موجودہ مقام برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے ایسا نہ کیا تو اس کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوگا اور پی ٹی آئی اس میں کامیاب ہوگئی تو ممکن ہے کہ یہ مرکز میں بھی اپنی حکومت بنالے۔

جنگ کا دوسرا میدان کراچی ہوگا اور یہاں بھی پی ٹی آئی کے حالیہ جلسے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ پی ٹی آئی کی مقبولیت شاید 2018ء جیسی تو نہیں رہی لیکن پھر بھی جماعت نے کراچی میں اپنی تمام تر حمایت گنوائی نہیں ہے۔ تاہم یہاں فیصلہ کن کردار ایم کیو ایم اور اس کی اپنے ووٹروں کے متحرک کرنے کی صلاحیت ادا کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرح حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ ایم کیو ایم کی قسمت پر بھی اثر انداز ہوگا۔

شاید پی ٹی آئی اپنے سخت ترین دور سے باہر آچکی ہو لیکن دیگر جماعتوں کے لیے ایسا نہیں کہا جاسکتا۔


یہ مضمون 19 اپریل 2022ئ کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں