یمن جنگ: حوثی باغی بچوں کو بطور سپاہی استعمال نہ کرنے پر متفق

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2022
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق یمن میں 2 ہزار 500 سے زیادہ اسکول ناقابل استعمال ہیں — فائل فوٹو: اے پی
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق یمن میں 2 ہزار 500 سے زیادہ اسکول ناقابل استعمال ہیں — فائل فوٹو: اے پی

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سات سالہ خانہ جنگی کے لیے ہزاروں کم عمر جنگجوؤں کے بھرتی ہونے کے بعد یمن کے حوثی باغی بچوں کی بطور فوجی استعمال بند کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے کہا کہ حوثی ایک نئے ایکشن پلان کے تحت تمام بچوں کو چھ ماہ کے اندر رہا کر دیں گے اور جنگجو فریقین نے اب بچوں کے حقوق کی ’سنگین خلاف ورزیوں‘ کو ختم کرنے کا عہد کر لیا ہے۔

حوثیوں کی جانب سے اس معاہدے کے بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، جس پر 2 اپریل کو اقوام متحدہ کی ثالثی سے شروع ہونے والی ایک کمزور جنگ بندی کے بعد دستخط کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: یمن: حوثی باغیوں کے بھرتی کیے گئے 2 ہزار بچے میدانِ جنگ میں مارے گئے

اقوام متحدہ نے کہا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 3 ہزار 500 کم عمر سپاہیوں کی شناخت ہو چکی ہے اور اس لڑائی میں 10 ہزار 200 سے زائدہ کم عمر سپاہی ’مارے گئے یا معذور‘ ہوئے ہیں۔

سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد نے حوثیوں کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے کے بعد 2015 میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کی حمایت کے لیے یمن جنگ میں مداخلت کی تھی۔

اقوام متحدہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’حوثیوں نے اقوام متحدہ کے ساتھ ایک ایکشن پلان پر دستخط کیے ہیں تاکہ مسلح تصادم میں بچوں کی بھرتی اور استعمال، بچوں کے قتل اور معذوری، اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ دیگر سنگین خلاف ورزیوں کو روکا جاسکے‘۔

انسانی حقوق کے نگرانوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی اموات کے تازہ ترین شواہد میں جنوری کے آخر میں اتحادی افواج کے فضائی حملوں میں مارے گئے کم از کم 80 افراد میں تین بچے بھی شامل ہیں، یہ بظاہر عام شہری تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حوثی باغیوں نے اقوام متحدہ کے نمانئدے سے نہ مل کر امن کا موقع گنوا دیا، امریکا

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق یمن میں 2 ہزار 500 سے زیادہ اسکول ناقابل استعمال ہیں، جن میں سے کچھ تباہ ہو چکے ہیں اور کچھ پناہ گزینوں کے کیمپوں یا فوجی مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ برائے اطفال اور مسلح تنازعات ورجینیا گامبا نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس سفر کا سب سے مشکل حصہ اب شروع ہوا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایکشن پلان کو مکمل طور پر لاگو کیا جانا چاہیے اور یمن میں بچوں کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی طرف لے جانا چاہیے‘۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ نے ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کو ہلاک اور لاکھوں کو بے گھر کیا ہے، جس سے دنیا کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Kashif Apr 20, 2022 06:00pm
محصور یمن کو سات سال سے جس بھوک افلاس کا سامنا ہے ۔ ان کے بچوں کو پڑوسی پہلے بمباری سے نجات دے دیں
Kashif Apr 21, 2022 01:25am
سعودی عرب کی پڑوسی ملک یمن پر چڑھائی کی خبریں نا دیا کریں۔ شریفین ناراض ہو جاتے ہیں۔