نئی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدات میں 24 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ

اپ ڈیٹ 28 اپريل 2022
مکمل طور پر بلٹ اپ فارم میں کاروں کی درآمدات جولائی تا مارچ کے دوران 50 فیصد تک بڑھ گئی—
مکمل طور پر بلٹ اپ فارم میں کاروں کی درآمدات جولائی تا مارچ کے دوران 50 فیصد تک بڑھ گئی—

کراچی: کاروں کی درآمدات میں بڑے پیمانے پر اضافے نے آٹو مارکیٹ میں یہ بحث شروع کر دی ہے کہ آیا استعمال شدہ کاروں کی آمد میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے یا اس کی وجہ نئی کمپنی کی چینی ایس یو وی کے 12ہزار یونٹس کی درآمد ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق مکمل طور پر بلٹ اپ (سی بی یو) فارم میں کاروں کی درآمد جولائی تا مارچ 22-2021 میں 50 فیصد بڑھ کر 24کروڑ 40لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی جو گزشتہ مالی سال میں اسی عرصے میں 16کروڑ 30 لاکھ ڈالر تھی، کاروں کی درآمد میں مالی سال 2021 میں 158 فیصد کا زبردست اضافہ دیکھا گیا جو مالی سال 20 میں 9کروڑ 90 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر 25کروڑ 60لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو اپنا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف

تمام نظریں ایم جی گاڑیوں پر ہیں جن کی درآمدات 12ہزار یونٹس تک پہنچ چکی ہے، کمپنی نے حال ہی میں ایک میڈیا مہم کے ذریعے 10ہزار یونٹ کی درآمد کا جشن منایا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے 2021 میں گاڑیوں کی انڈر انوائسنگ پر لاہور کی کمپنی کے خلاف انکوائری شروع کرنے کے بعد یہ کہہ کر معاملے کو کلیئر کر دیا تھا کہ یہ کیس جھوٹا ہے۔

تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے حال ہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں ایک نکاتی ایجنڈے پر بلائے گئے اجلاس میں ایم جی گاڑیوں کی درآمد کا معاملہ اٹھایا، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ایف بی آر کو معاملے کی مکمل انکوائری کر کے 30 دن میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ایم جی موٹر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پارٹس اور اسیسریز اور سی بی یو سے متعلق کل درآمدات ملک کے کل درآمدی بل کا 3 فیصد ہے، اسمبلرز کی طرف سے مکمل طور پر اور نیم ناک شدہ کٹس کی درآمد اس 3 فیصد حصے میں سے 86 فیصد ہے، باقی نئی اور استعمال شدہ کاروں کی درآمد پر جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک سوزوکی کے مختلف گاڑیوں کے ماڈلز کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ

انہوں نے دعویٰ کیا کہ استعمال شدہ کاریں مالی سال 2022 کے 9ماہ کے 24کروڑ 40لاکھ ڈالر کے کل درآمدی بل کا 90 فیصد بنتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2021 میں مختلف اسکیموں کے تحت 22ہزار استعمال شدہ کاریں پاکستان میں اتری تھیں جن پر حکومت جواب دینے کو تیار نہیں تھی۔

ایم جی موٹر کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایم جی موٹرز نے ستمبر 2021 میں اپلائی کرنے کے بعد سے مینوفیکچرنگ لائسنس حاصل نہیں کیا ہے، انہوں نے کہا کہ کمپنی لائسنس حاصل کرنے کے بعد لوکل اسمبلی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ایم جی کی اسمبلی میں کل 10کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے حکام لاہور میں فیز I کی سائٹ کا جائزہ لے رہے ہیں جبکہ فیز II کی سائٹ زیر تعمیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے کیس کے اختتام کے بعد بھی 10 کروڑ ڈالر کی ایم جی سرمایہ کاری کو ہدف بنایا جا رہا ہے، ایک لابی پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے خلاف کام کر رہی ہے جس کا واحد مقصد چینی کے تعاون سے پاکستان میں ہونے والی ترقی کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹویوٹا گاڑیوں کی قیمت میں ساڑھے 12 لاکھ روپے تک کا اضافہ

عہدیدار نے کہا کہ سی بی یو گاڑیاں دیگر آٹو موٹیو پلیئرز عالمی مال برداری میں اضافے کے بعد بھی پاکستان میں ایم جی ایچ ایس سے بہت کم لاگت اور فریٹ پر درآمد کر رہے ہیں لیکن ان کے خلاف ایسا کوئی الزام یا تحقیقات شروع نہیں کی گئی ہیں۔

مختلف ڈیوٹی رجیم کے تحت استعمال شدہ کاریں بغیر کسی وارنٹی یا بعد از فروخت سروس کے پاکستان میں درآمد کی گئی ہیں جو گفٹ اسکیم، رہائش اور ذاتی سامان کی منتقلی کا صریحاً غلط استعمال ہیں، انہوں نے کہا کہ تمام قابل اطلاق ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کرنے کے بعد بھی فروخت کے بعد سپورٹ اور وارنٹی والی بالکل نئی گاڑی کی کمرشل امپورٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام ایس یو ویز جیسے ٹویوٹا رش، پرنس گلوری، پروٹون، چنگن درآمد کی گئی ہیں اور انہیں اعلان کردہ قیمتوں پر کلیئر کیا گیا ہے لیکن صرف ایم جی گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے اور ایم جی گاڑیوں کے امپورٹر سے 1.1 بلین روپے تک اضافی ڈیوٹی اور ٹیکس وصول کیے گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں