شیخ رشید نے حنیف عباسی کی بطور معاون خصوصی تعیناتی چیلنج کردی

اپ ڈیٹ 06 مئ 2022
گزشتہ دنوں حنیف عباسی نے شیخ رشید کی وگ اتار کر لانے والے کو 50 ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز/اے پی
گزشتہ دنوں حنیف عباسی نے شیخ رشید کی وگ اتار کر لانے والے کو 50 ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان نیوز/اے پی

عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ اور سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے (ن) لیگ کے رہنما حنیف عباسی کی بطور وزیراعظم کے معاون خصوصی تعیناتی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

شیخ رشید نے وکیل سجیل شہریار سواتی کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں وفاق کو کابینہ سیکریٹری کے ذریعے اور (ن) لیگ کے رہنما کو فریق بنایا گیا ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب نئے تعینات ہونے والے وزیراعظم کے معاون خصوصی حنیف عباسی نے گزشتہ اتوار کو شیخ رشید کی وِگ ان کے سر سے اتار کر لانے والے کو 50 ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا تھا، جبکہ لیگی رہنما کے اس بیان پر پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فرحت اللہ بابر نے حنیف عباسی کے بیان کو ’پرتشدد‘ قرار دے دیا

درخواست میں شیخ رشید کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ حنیف عباسی کو 27 اپریل کو ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا جبکہ نوٹی فکیشن اور ان کا تقرر دونوں غیر قانونی، غیر آئینی، اچھی طرز حکمرانی اور قانون کی بالادستی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے مؤقف اپنایا ہے کہ 21 جولائی 2012 کو حنیف عباسی کے خلاف راولپنڈی میں منشیات کنٹرول ایکٹ 1997 کے سیکشن 9 سی، 14 اور 15 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

حنیف عباسی کے خلاف درج کی گئی مذکورہ ایف آئی آر کے مبینہ حقائق کے مطابق حنیف عباسی نے دیگر لوگوں کے ہمراہ اپنی فرم یعنی گرے فارماسیوٹیکل کے لیے 500 کلوگرام ایفی ڈرین حاصل کی اور اس کے بعد انہوں نے طبی مقاصد کے لیے ایفی ڈرین استعمال کرنے کے بجائے اسے منشیات کے اسمگلروں کو فروخت کرکے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھایا۔

مزید پڑھیں: یہ 5 شکلیں جہاں بھی جائیں گی، انہیں گندے انڈے پڑیں گے، شیخ رشید

درخواست گزار نے یہ بھی کہا ہے کہ حنیف عباسی کو ٹرائل کورٹ نے 2018 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ حنیف عباسی نے بعد میں اس سزا کو لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) میں چیلنج کیا اور سزا کی معطلی اور ضمانت کے لیے الگ درخواست بھی دائر کی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 11 اپریل 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی سزا صرف معطل کی تھی، ختم نہیں کی۔

شیخ رشید نے درخواست میں دلیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاون خصوصی کا عہدہ ایک باوقار منصب ہے جبکہ ایک سزا یافتہ شخص کا، خاص طور پر وہ شخص جو منشیات جیسے غیر اخلاقی کاروبار کے لیے سزا یافتہ ہو اس کا ایسے عہدے پر فائز ہونا کسی طور پر بھی موزوں اور مناسب نہیں۔

سابق وزیر نے اپنی درخواست میں یہ بھی مؤقف اپنایا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کی صرف سزا کو معطل کیا تھا جس کا مطلب ہے کہ فرد جرم ابھی ان پر عائد ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ان کی تعیناتی کرکے قانون کی حکمرانی اور آئین کا مذاق اڑایا۔

یہ بھی پڑھیں: ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا

شیخ رشید نے اپنی درخواست میں عدالت سے اپیل کی ہے کہ مدعا علیہان کو ہدایت کی جائے کہ وہ بتائیں کہ حنیف عباسی کو کس قانون کے تحت وزیر اعظم کا معاون خصوصی تعینات کیا گیا۔

ایفی ڈرین کوٹہ کیس

یاد رہے کہ ایفی ڈرین کیس مارچ 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب اس وقت کے وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ حکومت، دو فارماسیوٹیکل کمپنیوں برلیکس لیب انٹرنیشنل اور ڈاناس فارماسیوٹیکل لمیٹڈ کو 9 ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کے مبینہ طور پر مختص کوٹے کی تحقیقات کرے گی۔

قواعد کے مطابق کسی کمپنی کو 500 کلوگرام سے زیادہ منشیات کا پروڈکشن کوٹہ مختص نہیں کیا جا سکتا، یہ حد انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ (آئی این سی بی) نے مقرر کی ہے۔

اس معاملے پر اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے جون 2012 میں حنیف عباسی سمیت 9 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

2018 میں حنیف عباسی منشیات کے اسمگلروں کو 500 کلوگرام ایفی ڈرین فروخت کرنے کے مجرم پائے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: ایفی ڈرین کیس: ہائیکورٹ کے فیصلے کےخلاف حنیف عباسی کی درخواست مسترد

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے اپنی فرم یعنی گرے فارماسیوٹیکل کے لیے 500 کلوگرام ایفی ڈرین حاصل کی تھی اور اسے بعد میں انہوں نے طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے منشیات کے اسمگلروں کو فروخت کردیا تھا۔

لیگی رہنما پر عمر قید کے ساتھ 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا، اس کیس میں دیگر افراد کو بری کر دیا گیا۔

راولپنڈی کی سی این ایس عدالت نے 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات سے کچھ روز قبل حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

اس کے بعد حنیف عباسی نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایفی ڈرین کیس: ن لیگ کے حنیف عباسی پر فرد جرم عائد

راولپنڈی بینچ کے دو ججز نے ایفی ڈرین کیس میں لیگی رہنما کی اپیل کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا تھا جبکہ کیس لاہور ہائی کورٹ کے لاہور بینچ کو منتقل کردیا گیا تھا۔

اپریل 2019 میں لاہور ہائی کورٹ نے حنیف عباسی کو سنائی گئی عمر قید کی سزا معطل کر دی تھی اور انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حنیف عباسی کی سزا معطل کرنے کی درخواست منظور کرلی تھی جبکہ کیس کی سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں