بول نیوز کے اینکر سمیع ابراہیم کے خلاف 'ریاست مخالف' نشریات پر تحقیقات کا آغاز

08 مئ 2022
اینکر پرسن سمیع ابراہیم  سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت متعدد اعلیٰ شخصیات کے انٹرویوز کر چکے ہیں—فوٹو:ٹوئٹر
اینکر پرسن سمیع ابراہیم سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت متعدد اعلیٰ شخصیات کے انٹرویوز کر چکے ہیں—فوٹو:ٹوئٹر

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے 'بول نیوز' کے اینکر پرسن سمیع ابراہیم کے خلاف سماجی رابطے کے مختلف پلیٹ فارمز پر مبینہ طور پر ’ریاست مخالف‘ ویڈیوز اور بیانات نشر کرنے پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

ایف آئی اے نے ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں سمیع ابراہیم پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ 'ریاستی اداروں کے بارے میں جعلی خبریں پھیلانے میں ملوث ہیں'۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ 'سمیع ابراہیم نے ایسے دعوے کیے ہیں جو مسلح افواج کے اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کی واضح کوششیں ہیں، انہوں نے بیرون ملک مقیم رہنے کے دوران میڈیا کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی ہے۔'

سمیع ابراہیم ٹی وی اینکر ہیں اور سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت متعدد اعلیٰ شخصیات کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے کی ریاستی اداروں کے خلاف آن لائن مہم چلانے والوں کےخلاف کارروائی، 8 افراد گرفتار

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ سمیع ابراہیم کو انکوائری کے دوران اپنا دفاع کرنے کا پورا موقع ملے گا اور اگر وہ اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو ان کے خلاف تحقیقات کو بند کردیا جائے گا۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ بصورت دیگر، اگر جرم ثابت ہوا تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا اور انہیں گرفتار کرکے عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف انٹرپول کا ریڈ نوٹس جاری کیا جائے گا اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا جائے گا۔

مزید براں، ایف آئی اے نے پاکستانی تارکین وطن کو بیرون ملک رہتے ہوئے ملک میں 'افراتفری پھیلانے' سے خبردار کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ان کی پوسٹس 'جارحانہ یا بغاوت پر مبنی' نہیں ہونی چاہئیں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے پیکا سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست واپس لے لی

ایف آئی اے نے اینکر سمیع ابراہیم کو پیشی کا نوٹس بھی جاری کردیا ہے جس میں انہیں 13 مئی (جمعہ) کو صبح 11 بجے اسلام آباد میں ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا ہے جہاں وہ اپنا دفاع ریکارڈ کر اسکیں، اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو یہ سمجھا جائے گا کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور ان کے خلاف تعزیرات پاکستان (پی پی سی) کی دفعہ 174 (سرکاری ملازم کے حکم کی تعمیل نہ کرکے غیر حاضر رہنا) کے تحت طریقہ کار اپنایا جائے گا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری حاضری کے نوٹس میں شکایت کنندہ کے طور پر ریاست کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ شکایت 6 مئی کو درج کی گئی تھی۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ انکوائری پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کی دفعہ 20 کے تحت شروع کی گئی ہے جس میں ہتک عزت کو پی پی سی کی دفعہ 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) کے ساتھ ملا پڑھنے کی صورت میں مجرمانہ فعل قرار دیا گیا ہے۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اینکر سمیع ابراہیم نے جان بوجھ کر اور عوامی طور پر سوشل میڈیا پر ایک مبینہ ویڈیو شیئر کی تھی جس میں سینئر سرکاری اہلکاروں کے خلاف 'جھوٹے اور غیر سنجیدہ' الزامات لگائے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے پیکا سیکشن 20 کے خاتمے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چینلج کردیا

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سمیع ابراہیم نے سرکاری عہدیداروں، مسلح افواج کے اہلکاروں اور عام عوام کے درمیان بد اعتمادی، بد گمانی اور بے چینی پیدا کرنے کے لیے بد نیتی کے ساتھ ایک بیانیہ تیار کیا ہے۔

سمیع ابراہیم نے بھی ٹوئٹر پر تصدیق کی ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر انہوں نے اپنے وکیل سے بات کی ہے جس نے ایف آئی اے کو بتایا کہ میں بیرون ملک ہوں اور 14 مئی بروز ہفتہ وطن واپس آؤں گا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ پیکا(ترمیمی) آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے سیکشن 20 کو بھی ختم کر دیا تھا جس کے تحت ہتک عزت کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے ہفتے کے روز سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 اپریل کے حکم کو چیلنج کرنے کے لیے درخواست دائر کر کے سیکشن 20 کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم، ایف آئی اے کی جانب سے درخواست دائر کیے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اعلان کیا تھا کہ پٹیشن 'فوری طور پر واپس لے لی گئی ہے جبکہ صحافیوں اور میڈیا اداروں نے اس اقدام پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا اور پٹیشن کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

بعد ازاں، ایف آئی اے کے ترجمان نے اعتراف کیا تھا کہ اپیل حکومت اور بالخصوص وزارت داخلہ سے اجازت لیے بغیر دائر کی گئی تھی جبکہ اہلکار نے ڈان کو تصدیق کی تھی کہ 'اپیل کو فوری طور پر واپس لیا جا رہا ہے۔'

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں