شہریت نہ ملنے پر 800 پاکستانی ہندو بھارت سے واپس آگئے

اپ ڈیٹ 09 مئ 2022
وزارت داخلی امور کا کہنا ہے کہ پاکستانی ہندوؤں کی واپسی کو بھارت کے لیے شرمناک ہے
وزارت داخلی امور کا کہنا ہے کہ پاکستانی ہندوؤں کی واپسی کو بھارت کے لیے شرمناک ہے

پاکستانی اقلیتی حقوق کی وکالت کرنے والے سیمنت لوک سنگاتھن (ایس ایل ایس) کے مطابق مبینہ مذہبی ظلم و ستم کی بنیاد پر شہریت حاصل کرنے کے لیے بھارت جانے والے تقریباً 800 پاکستانی ہندو 2021 میں وطن واپس آئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی خبر رساں ادارے ’دی ہندو‘ نے ایس ایل ایس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ واپس آنے والے بہت سے ہندوؤں کی شہریت کی درخواست میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کے بعد وہ واپس وطن لوٹ گئے ہیں۔

وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ ان کی واپسی بھارت کے لیے شرمناک ہے، بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے 2018 میں شہریت کی درخواست کا ایک آن لائن عمل شروع کیا تھا۔

اس اقدام کے لیے 7 ریاستوں میں 16 کلکیٹروں کو تعینات کیا گیا تھا کہ جو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے ہندوؤں، مسیحیوں، سکھوں، پارسیوں ، جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کو شہریت دینے کے لیے آن لائن درخواستیں قبول کریں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی شہریت حاصل کرنے والوں میں بھارتی سرفہرست

بھارتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مذہبی بنیاد پر شہریت کے قانون کو بھارت کے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے گروہوں نے چیلنج کیا ہے، اس کے نفاذ میں بیوروکریٹک سرخ فیتہ رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سارا عمل آن لائن ہے لیکن پورٹل پاکستانی پاسپورٹس قبول نہیں کرتا جبکہ ان کی میعاد ختم ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے پناہ کے متلاشی لوگوں کو بھاری رقم کے عوض اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروانے کے لیے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

ایس ایل ایس کے ایک عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے ’دی ہندو‘ نے بتایا کہ اگر 10 افراد کا خاندان ہے، تو وہ پاسپورٹ کی تجدید کے لیے پاکستانی ہائی کمیشن میں ایک لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ بڑی مالی مشکلات کے دوران بھارت آتے ہیں اور یہ پاسپورٹ کی تجدید کے لیے اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی جیل میں قید خاتون کو پاکستانی شہریت کا سرٹیفیکٹ جاری

ایم ایچ اے نے 22 دسمبر 2021 کو راجیہ سبھا کو مطلع کیا کہ آن لائن موڈیول کے مطابق 14 دسمبر تک شہریت کے لیے 10ہزار 635 درخواستیں وزارت کے پاس زیر التوا تھیں، جن میں سے 7ہزار 306 درخواست دہندگان کا تعلق پاکستان سے تھا۔

سنگھ کے مطابق صرف راجستھان میں 25 ہزار پاکستانی ہندو ہیں جو شہریت کے منتظر ہیں، اور یہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے یہاں موجود ہیں ان میں سے کئی نے آف لائن موڈ میں درخواستیں دے رکھی ہیں۔

2015 میں ایم ایچ اے نے شہریت کے قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے 6 برادریوں سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی تارکین وطن کے قیام کو قانونی شکل دی تھی جو دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کی وجہ سے بھارت میں داخل ہوئے تھے۔

انہیں پاسپورٹ ایکٹ اور غیرملکی تارکین وطن ایکٹ سے قانونی دفعات کے ذریعے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا اور ان کے پاسپورٹ کی میعاد بھی ختم ہو چکی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں