ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ دو دہائیوں میں مقامی فلم سازوں کی طرف سے ’پاکستانی سینما کی بحالی’ کا نعرہ مسلسل بلند کیا جا رہا ہے، مگر یہ بحالی ہے کہ ہو ہی نہیں رہی۔

اب عالم یہ ہے، جہاں پورا سال اِکا دُکا پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں، وہاں عید کے موقع پر بیک وقت 5 پاکستانی فلمیں نمائش کے لیے پیش کردی گئیں۔ ان فلم سازوں نے یہ فلمیں ناجانے کب سے اپنی بغل میں دبا کر رکھی ہوئی تھیں۔ مگر اب ان کو اسکرین ٹائم باقاعدہ نہ ملنے کی شکایت ہوگئی ہے اور اس پر واویلا مچا رہے ہیں، مصداق چور مچائے شور۔

اس تناظر میں پاکستان پروڈیوسر ایسوسی ایشن اور کراچی آرٹس کونسل کے اشتراک سے ہنگامی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور ایک فرنگی فلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی۔ اس سے پہلے یہی سب کچھ کرکے انڈین فلمیں بھی بند کروا چکے ہیں، جن کی وجہ سے کم از کم پاکستانی تھیٹرز آباد رہتے تھے، اور ان سے سیکڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔

اب یہ چند ایک فلم ساز چاہتے ہیں کہ ہولی وڈ کی فلمیں بھی اس ملک میں آنا بند ہوجائیں، اور صرف ان مقامی فلم سازوں کی ڈراما نما فلموں کو دیکھنے عوام کا تانتا سینما تھیٹرز میں بندھا رہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ دیوانے کا خواب ہے کیونکہ فلم بین کو سینما تھیٹرز تک لانے کے لیے معیاری کام کرنا پہلی شرط ہے۔

آئیے ذرا شروع سے جائزہ لیتے ہیں کہ ان مسائل کو یہاں تک پہنچانے میں کس کس نے اپنا حصہ ڈالا اور لگے ہاتھوں، اس عید پر ان 5 شاہکار فلموں کا اختصار سے جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔


عید پر ریلیز ہونے والی پاکستانی فلمیں اور مختصر تجزیات


رواں برس 2022ء میں عید الفطر کے موقع پر 4 اردو اور ایک پنجابی فلم نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ پنجابی اور پشتو زبان میں چند ایک اور فلمیں بھی نمائش کے لیے پیش ہوئیں، مگر وہ مین اسٹریم کے سینماؤں تک نہیں آئیں، اس لیے ان کو اس بحث سے باہر رکھتے ہیں۔

سید نور کی نئی فلم ’تیرے باجرے دی راکھی’ ایک پرانی گھسی پٹی کہانی پر مبنی فلم ہے، جس میں ٹک ٹاکر اسٹار جنت مرزا کے فلمی کیریئر کی شروعات کا فیتا کاٹا گیا ہے، بس اب اسی سے اندازہ کرلیجیے کہ ہمارے فلم سازوں کا معیار فلمیں بناتے وقت ڈراموں سے ہوتا ہوا، ٹک ٹاک تک آگیا ہے۔

اسی موقع پر ریلیز ہونے والی 4 اردو فلموں میں یاسر نواز کی ’چکر’، وجاہت رؤف کی ’پردے میں رہنے دو’، عدنان صدیقی کی ’دم مستم’، حسن ضیا اور جمیل بیگ کی ‘گھبرانا نہیں ہے’ شامل ہیں۔

بالترتیب پہلی فلم ’چکر’ کا تبصرہ میں کرچکا ہوں، وہ پڑھ لیجیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ پاکستانی فلمی صنعت کو اتنے چکر کیوں آرہے ہیں۔

"یہ فلم میری زندگی کی یادگار فلم ہے۔ حسبِ سابق عید کے پہلے دن کے پہلے شو کی نشست بک کروائی اور فلم دیکھنے سینما پہنچا تو وہاں میرے علاوہ صرف ایک اور فرد اس فلم کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ پہلے میں نے حیرت سے ان کو اور انہوں نے مجھے دیکھا، پھر ہم دونوں نے مذکورہ فلم دیکھی۔"

"وہ دوسرا فرد کوئی اور نہیں بلکہ فلمی صنعت کے ایک مشہور ناقد تھے، جو زیادہ تر انگریزی میں فلموں پر تبصرے لکھتے ہیں۔ ہم دونوں نے مل کر یہ فلم دیکھی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کا خیال دل سے نکال دینا چاہیے۔ اس فلم کے چکر میں ہمارا وقت اور پیسے دونوں رفو چکر ہوئے۔"

دوسری فلم ’پردے میں رہنے دو’ کی کہانی میں ‘بچے پیدا کرنے کا مقابلہ ہو رہا ہے، سارے کردار اسی کام میں لگے ہوئے ہیں‘۔ وجاہت رؤف یوٹیوب پر جس مزاج کا بالغانہ ٹاک شو کرتے ہیں، اسی موڈ میں آکر یہ فلم بنا دی۔

تیسری فلم ’دم مستم’ کا حال اتنا بُرا ہے کہ ڈرامے کے ایک ہی مرکزی مقبول کردار کو اُسی اداکار سے فلم میں دوبارہ کروا کر، فلم بنا دی گئی۔ اس فلم میں ہیروئن کا کردار کچھ عرصہ پہلے اسی چینل کے زیرِ اہتمام ایک فلم ’سپراسٹار’ میں ماہرہ خان کرچکی ہیں، بلکہ اب تو ماہرہ خان نے بھی کہا ہے کہ ’میری فلمیں بنتی تو ہیں، مگر ریلیز نہیں ہوتیں‘۔ وہ ہوں بھی کیسے، کیونکہ سب کو عید پر جو فلمیں ریلیز کرنی ہیں۔ سارا سال سینما تھیٹرز والے بھلے فارغ بیٹھے رہیں۔

چوتھی فلم ’گھبرانا نہیں ہے’ سیاسی بالغان کی گفتگو کے محور پر ہے، جس میں فینٹیسی اور کامیڈی کے اجزائے ترکیبی ملا کر کہانی کو پیش کردیا گیا ہے۔ یہ روایتی کہانی ہے اور اس فلم کو ناقص قرار دیے جانے کی سب سے بڑی وجہ اس کا مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار زاہد احمد ہوں گے، جنہوں نے اس فلم کی خاطر اپنی باڈی لینگویج کو تبدیل کرنے کی ذرا بھی زحمت نہ کی اور نہ ہی گفتگو کے انداز کو۔ وہ ڈرامے اور فلم کے فرق سے نا آشنا ہیں، البتہ سید جبران اور جان ریمبو کی اداکاری متاثر کن رہی۔ صبا قمر بھی بس ٹھیک ہی رہیں، مگر نیئر اعجاز اپنے فن کے عروج پر ہیں۔ ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو سلام ہے، بے شک وہ ہماری فلمی صنعت کا حقیقی فخر ہیں۔

ان پانچوں فلموں میں ‘گھبرانا نہیں ہے’ قدرے بہتر فلم ہے، کیونکہ اس میں اپناپن زیادہ ہے، اپنے سماج کی حسِ مزاح جھلک رہی ہے، پھر خاص طور پر فلم میں پس منظر کی موسیقی اور نغمات نے فلم کے امیج کو کافی سہارا دیا ہے۔


پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کی ہنگامی پریس کانفرنس


یہی ایک کام ایسا ہے جس میں یہ ایسوسی ایشن کئی برسوں سے فعال ہے، وگرنہ پاکستان میں کسی فلم پر پابندی لگ جائے، جھوٹے باکس آفس بنائے جاتے رہیں، فلم کی پالیسی بنانے کی ضرورت ہو یا کچھ اور، کسی کام میں مجال ہے یہ اپنے ہونے کا احساس دلائے۔

بہرحال آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اشتراک سے، ان کی طرف سے ایک ہنگامی کانفرنس کی گئی، جو ایک انگریزی فلم ‘ڈاکٹر اسٹرینج’ کے خلاف تھی۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک فلمی ریکارڈ ہے کہ کسی فلم کے خلاف فلم سازوں نے ہی پریس کانفرنس کی۔ پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے صدر امجد رشید اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ کی سربراہی میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں شریک ہونے والے فلم سازوں میں یاسر نواز، ندا یاسر، عدنان صدیقی، وجاہت رؤف، شازیہ رؤف، بدر اکرام، جاوید شیخ اور فلموں کے تقسیم کار ستیش آنند شامل تھے۔

پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کی ہنگامی پریس کانفرنس
پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کی ہنگامی پریس کانفرنس

اس موقع پر صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے کہا کہ ’پاکستان سے باہر کی فلم لگا کر انڈسٹری کو تباہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ کورونا کی وجہ سے انڈسٹری بالکل ٹھپ ہوگئی تھی، اور جب 2 سال بعد 5 فلمیں ریلیز ہوئیں اور اچھا بزنس کر رہی تھیں، جس کی وجہ سے سنیما دوبارہ سر اٹھا رہا ہے، تو اس سب کو برباد کرنے کے لیے باہر کی فلم لائی جا رہی ہیں‘۔

پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین امجد رشید نے کہا کہ ’یہ غیر ملکی فلم ہمارے بزنس کو تباہ کردے گی، ہمارا مؤقف واضح ہے، ہم نے وفاقی حکومت سے باضابطہ طور پر بات کرنے کی کوشش کی مگر کوئی جواب نہیں ملا‘۔

سینئر اداکار جاوید شیخ نے کہا کہ ’وزیرِاعظم فوری طور پر اس مسئلے پر ایکشن لیں، اگر ہمارے ساتھ ایسا کیا گیا تو ہم آگے فلمیں کیسے بنائیں گے۔ ہماری فلموں کا معیار اب بلند ہوا ہے، وزیرِاعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے کا از خود نوٹس لیں‘۔

عدنان صدیقی نے کہا کہ 'بطور ہدایت کار و پروڈیوسر دم مستم میری پہلی فلم ہے اور یہ آسان کام نہیں ہے۔ ہم عمر بھر کی کمائی فلم بنانے میں لگاتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا جنون ہے، ہم غیر ملکی فلموں کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ ہم تو صرف یہ کہہ رہے تھے کہ اگر آپ غیر ملکی فلم سے ایڈوانس بکنگ لے چکے ہیں تو وہ فلم بعد میں بھی لگ سکتی تھی، ہم نے صرف ایک ہفتہ مانگا تھا'۔

یاسر نواز کا کہنا تھا کہ 'کورونا سے پہلے شوٹنگ شروع ہوئی اور 3، 4 روز بعد ہی کورونا آگیا۔ پہلے سوچا کہ 3، 4 دنوں کا نقصان برداشت کرلیں لیکن پھر سوچا کہ اگر ہم ہی ایسا کریں گے تو ہماری فلم انڈسٹری آگے کیسے بڑھے گی۔ بہت سالوں سے جو لوگ سینما نہیں گئے، وہ ہماری فلمیں دیکھنے گئے مگر ایسے وقت میں ہماری فلمیں اتار کر باہر کی فلم لگا دی گئی'۔

بدر اکرام نے کہا کہ 'ہماری اپیل تھی کہ ویک اینڈ کے 3 دن دے دیے جائیں، اور ہمیں اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی'۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ہم کسی فلم کو بین نہیں کرانا چاہتے، ہم نے 5 فلمیں دی ہیں، جس کا بزنس بہت اچھا رہا، ہماری ساری فلموں کے ہاؤس فل تھے، مگر باہر کی فلم لگنے کے بعد ہمارے 50 فیصد شو ڈراپ ہوگئے۔ ہمیں صرف 4 دن چاہیے تھے، جو ہمیں نہیں دیے گئے’۔

وجاہت رؤف نے کہا کہ ’ہمارے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے، اس کے بعد آئندہ فلمیں بنانے سے پہلے سوچیں گے، ہم کسی فلم کے خلاف نہیں، لیکن 5 پاکستانی فلموں کے ساتھ باہر کی فلم لگا کر ہماری حق تلفی کی گئی ہے۔


تصویر کا دوسرا رخ


یہ ذہن نشین رہے کہ اس ہنگامی پریس کانفرنس میں جو فلم ساز موجود تھے، یہ اپنی ہی ایک پاکستانی فلم کا حق کھا گئے۔ سید نور کی بنائی ہوئی پنجابی فلم کو کراچی میں کوئی اسکرین ہی نہیں ملی، جس کی وجہ یہ 4 اردو فلمیں تھیں، جن میں سے 3 فلموں کے پروڈیوسرز اس پریس کانفرنس میں موجود تھے اور فلم ’گھبرانا نہیں ہے’ کے پروڈیوسرز حسن ضیا اور جمیل بیگ نے اس میں شرکت نہیں کی۔ ان کا یہ عمل بھی ایک جواب ہے کہ یہ پوری پاکستانی فلمی صنعت کا متفقہ فیصلہ نہیں ہے۔

دوسرا پہلو یہ بھی ہے، چونکہ جمیل بیگ ایک سینما تھیٹر ادارے کے مالک ہیں، تو ایک طرح سے یہ پریس کانفرنس سینما مالکان کے خلاف کی گئی، تو وہ بھلا اس کانفرنس میں کیوں آئیں گے۔ یہ بھی سوالیہ نشان اپنی جگہ موجود ہے کہ سینما مالکان کامؤقف جاننے کے لیے، ان کو اس ہنگامی پریس کانفرنس میں مدعو کیا گیا۔

پھر کراچی میں موجود دیگر معروف فلم ساز، جن میں شعیب منصور، ہمایوں سعید، نبیل، فضا مرزا، سید عاطف علی، ابو علیحہ اور کئی ایسے فلم ساز موجود ہیں، جو اس سارے منظرنامے پر خاموش ہیں۔

لاہور کے فلم ساز ان کے علاوہ ہیں، جن کی طرف سے اس تناظر میں ابھی تک کوئی بات نہیں کی گئی۔ اس حوالے سے البتہ فلم ساز ابو علیحہ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ‘فلم ’زندگی تماشا‘ بین ہوئی تو کسی فلم پروڈیوسر نے پریس کانفرنس نہیں کی۔ ’جاوید اقبال‘ بین ہوئی، تو چیئرمین پاکستان فلم پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ ’آئی ول میٹ یو دئیر‘ بین ہوئی، تو بھی کسی پروڈیوسر نے مل بیٹھنے کی بات نہ کی، ’تیرے باجرے دی راکھی‘ کو کراچی اور حیدرآباد کے سینما میں غالباً ایک شو تک نہ ملا، کراچی کے فلم پروڈیوسرز کو اس پر کوئی ایشو نہ تھا، لیکن جیسے ہی ڈاکٹرا اسٹرینج ریلیز ہوئی اور عید پر ریلیز ہونے والی ان فلموں کے شوز کاٹے گئے، تو چیئرمین کی سرکردگی میں سب اکٹھے ہوئے اور سینما مالکان کے خلاف پریس کانفرنس کردی گئی‘۔

اچھا پھر اس پریس کانفرنس میں ان فلم سازوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ہولی وڈ کی فلم ’ڈاکٹر اسٹرینج’ نے عید کے پہلے دن سے ریلیز ہونا تھا، جس کو سینما مالکان سے ہی بات کرکے 3، 4 دن آگے کروایا گیا اور سینما مالکان نے ان کی بات رکھی، مگر عید کے پہلے دن، ایک فلم کے خالی تھیٹر کا، تو میں خود عینی گواہ ہوں، جس کا میں تفصیلی تذکرہ ‘چکر’ کے تبصرے میں کرچکا ہوں۔ تو وہ تھیٹر مالکان، جن کو کورونا کی وجہ سے مالی نقصانات اٹھانے پڑے، اب وہ ایک ایسی فلم کیوں نہ ریلیز کریں، جس کو پاکستانی عوام دیکھنے کے لیے حقیقی طور پر بے تاب ہیں اور اس کی ایڈوانس بکنگ ہو رہی ہے۔


سفاک رویے اور فلم سازی


پاکستانی فلم سازوں کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں، آخر یہ کیوں سارا سال اپنی فلمیں بغل میں دبائے رکھتے ہیں اور عید پر ایک ساتھ نمائش کے لیے لے کر آتے ہیں؟ کیا ان کو نہیں معلوم کہ پاکستان میں کتنی اسکرینز ہیں اور تناسب کے لحاظ سے کتنی فلموں کے حصے میں کتنے شوز آئیں گے۔

گزشتہ برس پاکستان سے کوئی فلم آسکر ایوارڈز کے لیے نامزد نہیں کی گئی، ابو علیحہٰ کی فلم ’جاوید اقبال’ اگر دسمبر میں اپنی نمائش کے مقررہ اور اعلان شدہ وقت پر ریلیز ہوجاتی تو یہ شاید سنہری موقع تھا کہ اس فلم کو آسکر ایوارڈز میں شارٹ لسٹ کرلیا جاتا اور کچھ بعید نہیں کہ وہ کسی ایوارڈ میں نامزد ہوجاتی، یا کوئی ایوارڈ جیت لیتی، کیونکہ اس کے موضوع میں بہت جان تھی، مگر بقول فلم کے ہدایت کار ’فلم کے پروڈیوسر جاوید احمد کاکے پوتو نے اس فلم کو گزشتہ برس اپنے مقررہ وقت میں ریلیز کرنے سے انکار کرتے ہوئے فلم کی تاریخِ نمائش کو آگے بڑھادیا‘۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار، نمائش کی تاریخ پر فلم کی پروموشن کے لیے دستیاب نہیں تھے۔ یوں گزشتہ برس پاکستان کی نمائندگی عالمی فلمی میلے میں نہیں ہوسکی۔ ذمے دار یہ رویے اور فلم ساز بھی تو ہیں۔


فلم دیکھنے کا حتمی فیصلہ کون کرتا ہے


سینما تھیٹرز میں کون سی فلم دیکھنی ہے اور کون سی نہیں، یہ حتمی فیصلہ فلم بین کرتے ہیں۔ فلم ساز اپنا کام کرتے ہیں، ڈسٹی بیوٹرز اور سینما تھیٹرز مالکان اپنے فرائض پورے کرتے ہیں، ہم فلمیں ریویو کرنے والے اپنا کام کرتے ہیں، مگر حتمی فیصلہ اچھی فلم پر ہوتا ہے اور وہ سینما دیکھنے والے ناظرین ہی کرتے ہیں۔

پاکستانی فلم ساز ابھی تک نہیں یہ بات سمجھ رہے کہ کورونا کے دنوں میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اوٹی ٹی پلیٹ فارمز اور آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز دیکھنے کی طرف متوجہ ہوچکی ہے۔ وہ گھر بیٹھے ان پاکستانی فلموں کی ایک ٹکٹ کے پیسوں میں پورا مہینہ دنیا بھر کا معیاری سینما دیکھ سکتے ہیں۔ ہر دوسرے شخص کے پاس نیٹ فلیکس دیکھنے کی سہولت ہے۔ اس سارے ماحول میں بولی وڈ سے متاثر نقل پر بنی فلمیں دیکھنے سینما کون جائے گا؟


اندھا بانٹے ریوڑیاں...


آج اس ساری صورتحال کی سب سے بڑی ذمے دار پاکستانی سرکار ہے، چاہے کسی کی حکومت بھی رہی ہو، سب نے سیاسی وعدے کیے مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔

ماضی قریب کی مثالوں میں گزشتہ 2 ادوار کی حکومتوں کے بیانات دیکھیں تو ان کی سنجیدگی آپ پر عیاں ہوجائے گی۔ ملک میں 3 سینسر بورڈز ہیں، اور وہ بامقصد اور متوازی مزاج کی عمدہ اور سنجیدہ فلموں پر بے جا پابندیاں لگاتے آرہے ہیں۔ ان تینوں بورڈز کا آپس میں اتفاق نہیں ہے، ایک ہی ملک میں ایک بورڈ جس فلم کو پاس کردیتا ہے، دوسرے بورڈ سے اس پر پابندی لگ جاتی ہے۔

اس کے بعد فلم ساز اور شوبز سے جڑے فنکاروں کے رویے بھی بڑی وجہ ہیں۔ ان کو جب میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے تو ان کے لیے میڈیا اچھا ہوتا ہے، لیکن جب ضرورت نہیں ہوتی تو یہ میڈیا سے کوئی رعایت نہیں برتتے اور اپنی فلموں کے فروغ میں گروہ بندیوں کے تحت کام کرتے ہیں۔ فلموں کے ریڈ کارپٹس اور پریمیر شوز کی رشوت اپنے مخصوص صحافی طبقے کو دیتے ہیں، غیر جانبدار صحافیوں کی تنقید ان سے سہی نہیں جاتی، یا پھر بامعاوضہ توصیفی تبصرہ نگاروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔

اس فلمی زوال میں میڈیا کا بھی اتنا ہی حصہ ہے۔ ایک اخلاقی فراڈ جو بہت عرصے سے کیا جا رہا ہے، اس پر کسی کی توجہ نہیں ہے اور وہ یہ کہ فلم کسی نے بھی بنائی ہو، پروموشن کے لیے جس چینل کے پاس وہ فلم گئی، بس وہ فلم اسی کی ہوگئی، اس کے بعد مجال ہے، سوائے اس کے، کوئی اور چینل اس فلم کے بارے میں کوئی بات کرے، حتیٰ کہ فلم سازوں کی اکثریت بھی یہی کرتی ہے۔

انہی لوگوں کی زبانوں پر اور چینلوں کی اسکرینز پر غیر ملکی فلموں کو بغیر کسی تفریق کے خبروں اور تبصروں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس وقت ان فلم سازوں کو اور پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن جیسی تنظیموں کو حب الوطنی کا سبق یاد نہیں آتا۔


حرفِ آخر


ہمارے ہاں شوبز میں کام لینے اور دینے کے پیمانے، معیار، کاسٹنگ کاؤچ اور ناجانے کتنے موضوعات ہیں، جن پر ابھی تک بات ہی نہیں ہوئی۔ پاکستانی فلمی صنعت ایسے ہی نہیں اس حال کو پہنچی بلکہ ایسی کئی تاریک حقیقتیں موجود ہیں۔ بات مزید تفصیل سے ہوسکتی ہے، مگر ابھی کے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ نقالوں سے ہوشیار رہیں۔ معیاری فلمیں دیکھیں، جو بھلے کوئی بھی بنائے اور وہ چاہے کسی بھی زبان میں ہوں۔

تبصرے (4) بند ہیں

adil May 09, 2022 06:10pm
janab 1 aur baat. aik pakistani movie ka ticket 600rs ka hai. ab cinema mein jayen aur wahan ki khaanee peene ki cheezon k sath 1 family (husband/wife) ko ye 1500-2000 mein par jata hai. itni mehangayi mein koi q cinema ja k itne paise lagaye ga
Prof Syed Ashiq Ali May 09, 2022 08:22pm
حقیقت پسندانہ تجزیہ۔۔۔ صرف فلم انڈسٹری ہی نہیں تقریباً ہر شعبہ زندگی میں ہمارا یہی رویہ ہے کہ خود معیاری پروڈکٹ دینی نہیں اور دوسری معیاری پروڈکٹس پر حب الوطنی، علاقائی، مذہبی قدغن لگا کر وار کرنا۔۔۔
Syed Talha Abid Ali Shah May 10, 2022 02:21am
بہترین تبصرہ!!!
Rizwanaa Shaikh May 11, 2022 01:40pm
دنیا کے ہر ملک میں ملکی فلموں کو اولیت دی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے پاکستانی فلم سازوں کا احتجاج درست ہے۔ ڈاکٹر سٹرینج کو مئی کے آخری ہفتے تک مؤخر کر دینا بہتر ہوتا۔ کیا امریکہ کے کسی سینما میں کبھی امریکی فلم کو ہٹا کر غیر ملکی فلم لگائی گئی ہے؟