الیکشن کمیشن کے عدالتی اختیارات پر اٹارنی جنرل کی معاونت طلب

اپ ڈیٹ 11 مئ 2022
درخواست میں دلیل دی گئی کہ ملک میں سپریم کورٹ سمیت 5 آئینی عدالتیں ہیں—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
درخواست میں دلیل دی گئی کہ ملک میں سپریم کورٹ سمیت 5 آئینی عدالتیں ہیں—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے عدالتی اختیارات سے متعلق درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان سے کیس میں معاونت طلب کرلی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقامی وکیل کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ای سی پی کا کام آزادانہ اور منصفافہ انتخاب کروانا ہے لہٰذا کمیشن کو عدالتی اختیارات اور خاص طور پر توہین عدالت کے اقدامات کرنے کے اختیارات کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ فیصلوں کے نفاذ کے لیے یہ اختیار اعلیٰ عدالتوں کے پاس موجود ہے۔

درخواست میں دلیل دی گئی کہ ملک میں سپریم کورٹ سمیت 5 آئینی عدالتیں ہیں اور ریاست کا کوئی دوسرا ادارہ ان کے برابر نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کے درمیان لفظی جنگ شدت اختیار کر گئی

درخواست گزار کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 4،9 اور 10 کو غیر آئینی قرار دیا جائے، یہ شقیں الیکشن کمیشن کو بااختیار بناتی ہیں کہ وہ لوگوں کو توہینِ عدالت سے متعلق سزا سنائیں یا ہدایت جاری کریں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ حال ہی میں دیے گئے ایک فیصلے میں الیکشنز ایکٹ کی تشریح کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اختیارات واضح کر چکا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ عدالتِ عظمیٰ کا ڈویژن بینچ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے لیکن وہ عدالتی اختیارات کا استعمال کر سکتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے معاملے کی مزید کارروائی 15 روز کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعظم کو ایک اور نوٹس

دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک عادی مدعی شاہ جہاک خان پر 2 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا، مدعی نے مسجدِ نبویﷺ کے واقعے پر غیر سنجیدہ درخواست دائر کرتے ہوئے اہم سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دئیے کہ عادی مدعی کی درخواست کی سماعت اس وقت تک نہیں کی جائے گی جب تک وہ جرمانے کی رقم جمع نہ کروادیں۔

تبصرے (0) بند ہیں