انتخابی اصلاحات کے بعد ہی عام انتخابات ہوں گے، آصف علی زرداری

اپ ڈیٹ 11 مئ 2022
آصف علی زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ سندھ بھی موجود تھے—فوٹو: امتیاز علی
آصف علی زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ سندھ بھی موجود تھے—فوٹو: امتیاز علی
آصف علی زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز
آصف علی زرداری نے کراچی میں پریس کانفرنس کی—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہم الیکشن سے نہیں ڈرتے لیکن ہمارے گیم پلان میں انتخابی اور قومی احتساب بیورو (نیب) اصلاحات ہیں، جس کے بعد انتخابات ہوں گے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ آج تک میں یہ کہتا آیا ہوں کہ الیکشن کرائیں، یہ الیکشن دھاندلی کے ہوئے ہیں تو کسی مانا نہیں اور کسی نے سنا نہیں، اس کے وقت کے نام نہاد سلیکٹڈ نے بھی نہیں سنا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان اور پرویز مشرف کی حکومت میں صرف وردی کا فرق ہے، آصف زرداری

ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے سلیکٹڈ کو سیاسی فورسز کی مدد سے ہم نے حکومت بنالی ہے لیکن اس کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیراعظم بنانے کے لیے ہمیں کوئی ایک ووٹ بھی نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ اب وہ چاہتے ہیں الیکشن ہوں تو ہم نے کب کہا کہ ہم الیکشن سے ڈرتے ہیں، ہمارے گیم پلان میں انتخابی اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی اصلاحات ہیں، یہ سب اصلاحات کرنے ہیں جس سے معاشی حالات بہتر ہوں۔

سابق صدر نے کہا کہ جس حال پر اس وقت معیشت ہے، میں منفی اصطلاح استعمال نہیں کرنا چاہتا کہ لوگ آپ کو پیسہ بھی نہیں دینا چاہتے ہیں اور آپ کا اسٹاک ایکسچینج کھڑا ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹاک ایکسچینج پرویز مشرف کے زمانے میں 9 ہزار سے جب ہم نے چھوڑا تو تقریباً 26 ہزار تھا، ان کا الیکشن کا جو نعرہ ہے، تو یہ الیکشن سے کیا کرلے گا، پہلے اس نے 4 سال میں کیا کیا۔

'معیشت ٹھیک کرنی ہے'

آصف علی زرداری نے کہا کہ میاںنوازشریف سے مشاورت کے بعد بات کر رہا ہوں کہ جیسے ہماری اصلاحات پورے ہوتے ہیں مثلاً اس وقت تیل مہنگا ہے تو تیل کہاں سے سستا لائیں گے، ہمیں مذاکرات کرنے ہوں گے، سعودی عرب نے پہلے 10 لاکھ بیرل 70 ڈالر کا وعدہ کیا ہے، وہ مل رہی ہے یا ملنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے تعلقات اچھے ہیں اور وہ ان سے بات کریں گے اور جہاں تک عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا تعلق ہے، توجب پروگرام نہیں آجاتا تو ہمارے پاس مشکلات ہیں، تیل کی قیمت ہم نہیں بڑھانا چاہتےہیں کیونکہ ایک دفعہ تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو تیل، انڈہ اور ٹماٹر کی قیمت بڑھتی ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کے پاس 3 دن ہیں، استعفیٰ دیں اور گھر جائیں، بلاول بھٹو زرداری

سابق وزیراعظم عمران خان کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ تو کہتا تھا کہ ٹماٹر اور آلو کی قیمت کے لیے نہیں آیا لیکن میں تو ٹماٹر اور آلو کے لیے آیا ہوں، جو چولھے بجھ گئے ہیں میں ان کو جلاؤں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس آؤٹ آف دا بکس کافی تجاویز ہیں، آپ کے پاس اسٹیٹ لائف انشورنس ہے، اس وقت 100 ارب سے زیادہ سرمایہ ہے، اس میں سے 26 فیصد کسی کاروباری کو دے دیں، جس کا ریکارڈ اچھا ہو، مارکیٹ سے 26 فیصد پر کم سے کم آپ کو 8، 10 ارب ملیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی لائنز کی بھی نجکاری کرنی ہیں، سندھ اور پنجاب میں یہ لائنز نجی شعبے میں لے کر جانا، پاکستان کے کاروباری ہمارے ساتھ بیٹھیں، ان کی تجاویز بھی لینا چاہتا ہوں اور اپنی تجاویز بھی دینا چاہتا ہوں لیکن حل آؤٹ آف دا بکس نکالنا ہے، ان دا بکس جس طرح ماہرین معاشیات کرتےہیں، تو اس وقت معیشت چھوٹی اور آبادی کم تھی، 2 فیصد نیچے کرنے سے قصہ چلتا تھا لیکن آج چلتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج 50 ہزار میں بھی شہری کو تکلیف ہے کیونکہ بجلی مہنگی ہے جس کو برداشت نہیں کرسکتا ہے، ہمیں ایک پروگرام دینا پڑے گا، پورے سندھ اور پاکستان میں سولر بجلی پیدا کرنی ہے، پاورپلانٹس پر نہیں جائیں بلکہ انفرادی طور پر سوفٹ لون پر دیں اور وہ زمینوں، پمپس اور گھروں میں بھی لگائیں، جہاں سے جو بجلی بچتی ہے وہ صنعتی شعبے کو دیں لیکن ایک طریقے سے دیں تاکہ بجلی اتنی مہنگی نہ ہو اس کی مصنوعات ناقابل رسائی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے نظام کے لیے میں نے پارلیمان میں موجود ایک پارٹی کو بھی نہیں چھوڑا جو ہمارے ساتھ نہیں بیٹھے ہوں۔

'ان کے پاس بڑا پیسہ آرہا ہے'

سابق وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ صرف جھوٹ کا مربہ ہے، جب کھڑا ہوتا ہے، امریکا اور پوری دنیا میں اینجلیکن پریسٹ کی بڑی پیروی ہوتی ہے، ان کے پاس بڑا مال ہوتا ہے اور پیسہ آتا ہے، اس کے پاس بھی بڑا مال آرہا ہے اور لوگ بے وقوف بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایک شخصیت تخلیق کرتے ہیں، کلٹ پیدا کر رہے ہیں اور پھر اس کو استعمال کرتے ہیں لیکن وہ پاکستان میں اس طرح نہیں کر سکیں گے، پاکستان سے باہر جو لوگ مقیم ہیں، ان کو گمراہ کیا ہوا ہے کیونکہ وہ یہاں رہتے نہیں ہیں، اس لیے ان کو یہاں کے حالات اور مہنگائی کا پتہ نہیں ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کو نہیں پتا کہ میں گڑھی خدابخش سے آرہا جہاں 52 ڈگری تھی، تین دن نواب شاہ میں تھا جہاں 48 مگر 58 ہے، اتنی لو چلتی ہے تو یہ عملی حقیقت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کے پاس ملک کی ترقی کیلئے ماسٹر پلان ہے، زرداری

انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہمارے لیے جتنا بھی اچھا اور ہمدری رکھنے والا ہمارے لیے حل نہیں نکال سکتا ہے، ہمیں خود بنانا ہے، پاکستان سے بنانا ہے۔

'پہلی دفعہ غیرسیاسی فوج'

آصف علی زرداری نے کہا کہ پہلی دفعہ اگر فوج ایک غیرسیاسی ہوتی ہے تو مجھے باجوہ کو سیلوٹ کرنا چاہیے یا ان سے لڑنا چاہیے کہ تم کیوں غیرسیاسی ہوئے ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مجھے یا کسی اور کو یہ نہیں کہا کہ تم جا کر زرداری یا شہباز شریف کو ووٹ دو، وہ اس لیے غیرسیاسی ہوئے کہ ہم دخل انداز نہیں ہوں گے، کیونکہ انہوں نے آئینی طور پر حلف لیا ہوا ہے اور وہ اسی پر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حلف پر رہیں تو بھی غلط ہیں اور نہ رہیں تو بھی غلط ہیں، ایسا نہیں چلے گا، شکر یہ اس مشق میں پتہ پڑا کہ وہ غیر جانب دار اور غیرسیاسی ہو سکتےہیں اور ہم کوشش کرتے رہیں گے کہ وہ ایسے رہیں۔

سابق صدر کا کہنا تھا کہ اگر عوام اور قوم کے کوئی مسائل ہیں تو اس کے عوامی نمائندے ہم ہیں، لوگوں نے ووٹ اسی لیے دیا ہے کہ میں دنیا میں ان کے مسئلے بتاسکوں اور دیکھ سکوں۔

ایک سوال پر کہ کیا آپ انٹرسروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو بھی سیلوٹ کریں گے تو آصف زرداری نے جواب دیا کہ ‘فیض حمید بیچارہ کھڈے لائن ہے’۔

بعدازاں آصف علی زرداری نے وضاحتی بیان میں کہا کہ 'مذکورہ الفاظ نادانستہ طور پر ادا ہوئے'۔

'پانی کا مسئلہ ہے'

ان کا کہنا تھا کہ پانی کا مسئلہ بھی ہے، نواب شاہ میں اپنی اور غریبوں کی فصلیں دیکھ کر رو رہا تھا، کچھ گلیشئرز پگھل گئی ہیں اور پانی آرہا ہے، ہم لوگوں کو یہ تو نہیں کہیں گے عمرے پر مت جاؤ ہم نے جلسہ کرنا ہے، مگر جو دوست ہیں ان کو کام پر لگائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ لوگ ٹی وی پر یہ گانا گا رہے ہیں کہ فریش الیکشن کرواؤ، جو بھی آئے گا اس کو یہ مسئلے حل کرنے ہیں، تو ہمیں کرنے دو پھر ہمیں الیکشن میں جانے دو، پھر ہم دیکھیں گے۔

مزیدپڑھیں: تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد شفاف الیکشن پر اتفاق ہے، بلاول بھٹو

انتخابات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قانون تو بنانے دو، سارا جھگڑا اسی قانون پر ہے، جس پر یہ سلیکٹڈ یا کوئی اور سلیکٹڈ لایا جاسکتا ہے، ہم نے قانون تبدیل کرنا ہے اور بہتری کے بعد انتخابات میں جانا ہے، اس میں 3 مہینے لگیں یا 4 ماہ لگیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

'بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سیٹیں دیں'

آصف زرداری نے کہا کہ ہمیں انتخابی قوانین کی بہتری کے لیے ہماری پالیسی پر عمل درآمد کرنا ہے، جیسے بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ہم ان کے لیے ایک مخصوص تعداد میں سیٹیں رکھیں گے، ہر پارٹی کے ووٹ کے تناسب سے اتنی سیٹیں ہوجائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی سعودی عرب، لندن، ٹیکساس میں دیں جہاں بھی پاکستانیوں کی اکثریت ہے، برطانیہ میں زیادہ ہے تو وہاں دیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، جتنا بنایا گیا ہے، ہر چیز کو یہ سیاسی کردیتے ہیں اور اس سے منفی سیاست ہوتی ہے، اس لیے یہ ٹھیک مسئلہ نہیں ہے، غلط راستہ لیں گے تو غلط منزل پر پہنچیں گے۔

'میں نے ججوں کے خلاف مہم نہیں چلائی'

شریک چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو نکالا گیا لیکن میں نے ججوں کے خلاف مہم نہیں چلائی، مجھے مشرف بھی 5 سال جیل میں رکھ کر بیٹھ گئے تھے، ہم اس کو آمر کہتے تھے لیکن ہم نے ان کے گھر میں جا کر ہلا نہیں بولا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تو کہ چکا ہوں مشرف کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ وہ دیکھے کہ کیا تکلیف ہے، کسی کو دکھ دے کر یا قتل کرکے جو جاتا ہے تو اس سے اللہ بھی پوچھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ورکر ضیا کو کہتے تھے پاش پاش ہوجائے گا تومجھے سمجھ نہیں آتی تھی کیسے ہوگا اور جب ہوا تو پاش پاش ہوگیا۔

آصف زرداری نے کہا کہ اداروں کو اپنا کام کرنے دیں، ہر ادارہ اپنا کام کرے، ان کو مدد کریں، بیوروکریسی کو تباہ کردیا گیا ہے، دنیا کے ممالک سے تعلقات کا وجود ہی نہیں ہے، وہ ہم پر اعتماد کھو چکے ہیں لیکن حالات بہتر کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے سارے فیصلے سب دوستوں کے ساتھ مل کر کرنے ہیں اور صورت حال کو سنبھال لیں گے، مقابلہ کریں گے، جمہوریت میں جیت ہار ہوتی رہتی ہے، یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، اپوزیشن کی سیاست سے خوف نہیں آتا ہے۔

'یہ کون سا بنگال کا نواب ہے'

انہوں نے کہا کہ ملک، قوم اور بین الاقوامی تعلقات کے معاملے میں ہمیں بہت واضح ہونا چاہیے، یہ کون سا بنگال کا نواب ہے جس کے ساتھ میر جعفر اور میر صادق ہوگیا۔

آصف زرداری نے کہا کہ کل کا کرکٹر کا کیا واسطہ کہ یہ لوگوں کو میر جعفر اور میر صادق کے تمغے دے رہا ہے، وہ نواب آف بنگال تھا، جس میں بہار کا خطہ بھی شامل تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کا آج کی صورت حال سے کیا واسطہ ہے، کیونکہ میں نہیں ہوں اس لیے کوئی نہیں ہونا چاہیے، میرے مطابق پاکستان کی آبادی 30 کروڑ ہے، اس میں ہم نے پاکستان بنانا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کو سنبھالنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گمراہ دوستوں نے کہا دبئی گیا، میں اپنے بچے کو دیکھنے گیا تھا، یہ نہیں کہتے میں نے کسی کو کہا نہیں جانا ہے، میں نے کورٹ میں اپلائی نہیں کیا کہ میں جانا چاہتا ہوں، میں اس وقت گیا جب میرا نام ای سی ایل سےہٹایا گیا اور تین دن میں واپس آگیا۔

سابق صدر نے کہا کہ اگر پاکستان کوئی چلاسکتا ہے تو وہ ہم ہیں، یہ نہیں چلاسکتا، پہلے دن کا کہنا تھا کہ یہ اپنے زور سے گریں گے تو ایسا ہی ہوا، ان کے اپنے دوستوں نے چھوڑا کیونکہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔

‘دھمکی آمیز خط افسانہ ہے’

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر کے مراسلے کے حوالے سے ایک سوال پر آصف علی زرداری نے کہا کہ میں نے مراسلہ نہیں پڑھا، میں نہیں سمجھتا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کوئی عہدیدار اس طرح غیرذمہ دار نہیں ہوسکتا ہے جس طرح رپورٹ کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سفارتی زبان ایسی نہیں ہوتی ہے، تحریک عدم اعتماد کی قیادت میں نے کی ہے، مجھے تو وہاں سے ایک فون کال بھی نہیں آئی ہے، واسنگٹن میں میرے بہت پرانے جاننے والے ہیں، کسی ایک نے فون کردیا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے، انہوں نے اس کو بنایا ہے، یہ ایک سیاسی افسانہ ہے جو وہ بنا رہے ہیں، امریکا کے پاس روس کی جنگ ہے، ان کی اپنی معیشت کے مسئلے ہیں، ڈالر کی گراوٹ ہو رہی ہے، ان کے جگر میں ساری دنیا کا درد نہیں ہے۔

سابق صدر نے کہا کہ ہمیں اپنا درد ٹھیک کرنا ہے اور اپنی پالیسیاں ٹھیک کرنی ہیں، ہمیں آزاد اور محفوظ ملک اور دنیا کے محفوظ مقام ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بائیڈن کو جانتا ہوں وہ میرا دوست ہے، اگر ایسا ہوتا تو کم ازکم مجھے فون کرتا ہے کہ آپ نے اچھا کام کیا، مجھے تو کوئی فون نہیں آیا، اس کا مطلب ہے کہ وہ غیرضروری سیاسی فائدہ حاصل کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند لوگ امریکا مخالف ہیں، ہماری سرحد پر 40 سال جنگ ہوتی رہی ہے، اس لیے ہمارے لوگوں کو مسئلہ ہے، اگر ان کا مؤقف درست ہے تو دوسری طرف بھی سچ ہوگا ہمیں تو کوئی 10 ارب کا پیکیج نہیں ملا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں