قومی اسمبلی کی ٹیم کا پانی کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے گدو بیراج کا دورہ

اپ ڈیٹ 15 مئ 2022
رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نئے طریقے کار پر آنا چاہیے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نئے طریقے کار پر آنا چاہیے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

گزشتہ کئی روز سے جاری پانی کے بحران اور صوبوں میں پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کے دعوؤں کا جائزہ لینے کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل و آب پاشی کے عہدیداران نے گدو بیراج اور اس سے متصل کنال کا دورہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا جب پانی کی شدید قلت کے ساتھ ساتھ شدید گرمی کی لہر کے بعد جنوبی پنجاب اور سندھ میں شدید خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

پانی کی طلب اور فراہمی میں بہت زیادہ فرق ہونے کے سبب دونوں صوبوں کے درمیان ملک کے آبی وسائل میں اپنے حصے کے حوالے سے تناؤ بڑھ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: پانی کے بہاؤ میں کمی کا مسئلہ، پنجاب نے سندھ کو ذمہ دار ٹھہرادیا

کشمور کے قریب دریائے سندھ پر قائم گدو بیراج سے موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز دورہ کرنے والے عہدیداران میں قائمہ کمیٹی کے اراکین میں بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی خالد مگسی، پنجاب سے ایم این اے ریاض الدین، سندھ واٹر کمیشن کے منیجر مہر علی شاہ اور پنجاب کے دیگر عہدیداران شامل تھے۔

بعد ازاں خالد مگسی نے میڈیا کو بتایا کہ پنجاب اور سندھ کے درمیان تکنیکی تنازع ہے اور یہ دورہ وفاقی وزیر آبی وسائل خورشید شاہ کے درخواست پر کیا گیا ہے، یہ دورہ فوری طور پر بحران سے نمٹنے کے لیے یکساں حل تلاش کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔

خالد مگسی کا کہنا تھا کہ ملک میں پانی کا بحران بارش کی کمی اور گلیشیئرز کے آہستہ پگھلنے کے سبب پیدا ہوا ہے۔

بین الصوبائی تنازع پر وضاحت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب جمع شدہ پانی بروقت فراہم کر رہا ہے جبکہ سندھ کا اصرار ہے کہ انہیں اپنے حصے کا پانی موصول نہیں ہوا جس سے زمینوں کو مؤثر طریقے سے سیراب کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ بھر میں نہریں خشک ہونے کے سبب فصلیں پیاسی ہوگئیں

قانون ساز کا کہنا تھا کہ یہ اعتراضات عام حالات میں اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں ایسا نہیں کیا جاسکتا، جب حالات مکمل طور پر پریشان کُن ہیں اور اوپر کی طرف سے پانی نہیں آرہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نئے طریقے کار پر آنا چاہیے‘۔

سندھ کے لیے پانی چھوڑے جانے پر دریا سے پانی چوری ہونے سے متعلق خدشات پر ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔

خالد مگسی کا کہنا تھا کہ یہ پنجاب کی ذمہ داری ہے کہ وہ سندھ کے حصے کا پانی چھوڑے اور صوبے کے احاطے میں پانی کی چوری روکے، علاوہ ازیں کسی کو اس بات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے کہ سندھ، گدو بیراج کا پانی کس طرح تقسیم کرتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں