پانی کے بہاؤ میں کمی کا مسئلہ، پنجاب نے سندھ کو ذمہ دار ٹھہرادیا

ماضی کے برعکس چولستان میں مارچ اپریل اور مئی میں برسات نہیں ہوئی— فائل فوٹو: سید ضل علی
ماضی کے برعکس چولستان میں مارچ اپریل اور مئی میں برسات نہیں ہوئی— فائل فوٹو: سید ضل علی

شدید گرمی کی لہر کے ساتھ ساتھ پانی کی شدید قلت نے جنوبی پنجاب اور سندھ میں شدید خدشات کو جنم دیا ہے، دونوں صوبوں کے درمیان ملک کے آبی وسائل میں ان کے حصے کو لے کر تناؤ بڑھ رہا ہے جس کی وجہ پانی کی طلب اور میں فراہمی کا فرق ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے علاقے چولستان، تھل سمیت ڈیرہ غازی خان نے قبائلی علاقوں اور راجن پور میں زندگی الٹ کر رہ گئی ہے، یہاں شہری پانی کی تلاش میں اپنے مویشیوں کے ہمراہ ہریالی، چرگاہوں اور اربن سینٹر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔

صحرا کے علاقوں میں مئی کے آغاز سے ہیٹ ویو کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاتے دیکھا گیا، یہاں گزشتہ دہائی میں یہاں اوسطاً درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

دیگر اضلاع میں درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاپہنچا ہے جو گزشتہ سال اسی دورانیے میں 40 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

مزید پڑھیں: پانی کی قلت کے سبب فصلوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ

ماضی کے برعکس چولستان میں مارچ اپریل اور مئی میں برسات نہیں ہوئی جس کی وجہ سے برساتی تالاب سوکھ چکے ہیں، پانی کی کمی اور ساتھ ہی گرم موسم کے سبب4 درجن دنبے مرگئے جس کے بعد پنجاب حکومت آخر کار ہوش میں آگئی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے فوری طور پر 11 بیس کیمپ قائم کرتے ہوئےجانوروں کو باؤزر کے ذریعے پاسنی سمیت ادویات اور چارہ دینے کا حکم دیا ہے۔

پنجاب کے آبپاشی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(ارسا)صوبے کے حصے سے کم 4 لاکھ ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی فراہم کر کے بحران کو مزید تقویت دے رہی ہےان کا ماننا ہے کہ 16 اپریل سے سندھ کو اس سے حصے سے زیادہ 6 لاکھ ایکڑ فٹ ( ایم اے ایف) پانی کی فراہمی کی گئی۔

ایک عہدیدار کا دعویٰ کیا ہے کہ 16 اپریل سے 11 مئی کے دورانیے میں پنجاب کو اس کے حصے سے 26 فیصد کم پانی فراہم کیا گیا۔

ان کا الزام ہے کہ سندھ نے اس دورانیے میں اپنے حصے سے 77 فیصد زیادہ پانی موصول کیا۔

مزید پڑھیں: پانی کے بڑے ذخائر میں بہتری آنا شروع

تاہم سندھ کے ایک عہدیدار نے اس کے بالکل برعکس جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ درحقیقت پنجاب کے استعمال کے لیے سندھ کو غیر منصفانہ حصہ دیا جاتا ہے۔

سرائیکی لوک سنجھ کے پروفیسر مشتاق گادھی کا کہنا ہے کہ ٹریمو اسلام لنک کنال کی تعمیر میں ناکامی کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں حالات خراب ہوگئے ہیں، سندھ طاس معاہدے کے تحت اسے 31 مارچ 1968 تک تعمیر ہونا تھا۔

20 ہزار کیوسک کی ڈیزائن کردہ صلاحیت کے ساتھ اس نہر کا مقصد چولستان بہاولپور کے علاقے میں ستلج کے پانی کے نقصان کو کم کرنا تھا اور اسے دریائے ستلج کی وادی میں مصنوعی جھیلوں کو کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا تھا تاکہ وہاں تیزی سے ختم ہونے والے زیر زمین پانی کے وسائل کو دوبارہ بھرا جا سکے۔

سندھ میں پانی کی قلت

ادھر سندھ اس کے حصے کا پانی فراہم نہ کرنے پر ناراض ہے۔

چیئرمین ارسا بلوچستان اور پنجاب اتھارٹی کے اراکین، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے کچھ اراکین، واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے نمائندوں اور سندھ اریگیشن حکام کے ہمراہ سکھر اور گڈو بیراج میں پانی کے بہاؤ کا جائزہ لینے کے لیے سکھر پہنچے تھے۔

سندھ کے وزیر آبپاشی جام خان شورو نے پانی کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا۔

انہوں نے اس تین درجے کے فارمولے کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ سندھ اور دریائے سندھ کے نظام میں نچلے حصے کو بہت نقصان میں پہنچا رہا ہے۔

صوبائی وزیر نے سوال کیا کہ اگر ارسا میں اکثریت اس کے خلاف فیصلہ کرتی ہے تو کیا ہمیں پانی کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جائے گی؟ سندھ صرف اپنا حصہ چاہتا ہے، تقسیم اور قلت کا انتظام معاہدے کے مطابق کیا جائے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پانی کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟

خیال رہے گڈو بیراج پر جمعہ کی صبح پانی کی آمد میں 7575 کیوسک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، یہاں 12 مئی کو صبح 6 بجے 36ہزار 800 کیوسک کا بہاؤ بتایا گیا تھا جبکہ 13 مئی کو بہتری کے بعد پانی کا بہا 44ہزار375 کیوسک پہنچ گیا تھا۔

آبپاشی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کے بہاؤ میں تربیلا سے اضافہ ہوا ہے، جسے دریا کے کنارے سے راستہ بنانے میں وقت لگا اور اب آہستہ آہستہ پہنچ رہا ہے۔

پانی کی تاخیر سے آمد نے سب کو پریشان کر دیا تھا، امید ہے کہ اس میں مزید بہتری آئے گی۔

پانی کے بہاؤ کا جائزہ لینے کی مشق کے لیے سندھ کا دورہ کرنے والے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہم ان دو دنوں میں سکھر اور گڈو بیراج پر ہر نہر کے بہاؤ کی نگرانی کریں گے کیونکہ تونسہ اور گڈو کے درمیان بہاؤ کی کمی ہمارے لیے پریشان کن ہے۔

سکھر بیراج کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ گڈو میں بہاؤ میں بہتری آئی ہے، لیکن پانی کی طلب بڑھتی رہے گی، غیر بارہ ماسی دادو اور چاول کی نہروں کو پانی فراہم کیا جانا ہے جو کہ خصوصی طور پر چاول کی کاشت کے راستے ہیں اور بلوچستان کا حصہ بھی یقینی بنایا جانا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں