جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف قوانین کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 15 مئ 2022
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ 1979 میں ایک فوجی آمر نے ملک کے مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانے کا فیصلہ کیا — فوٹو: ڈان آرکائیو
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ 1979 میں ایک فوجی آمر نے ملک کے مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانے کا فیصلہ کیا — فوٹو: ڈان آرکائیو

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے خلاف جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کی حوصلہ شکنی اور روک تھام کے لیے قوانین کی ضرورت اور ان پر عمل درآمد سمیت لوگوں میں خواتین کے لیے احترام کے فروغ پر زور دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں لیگل ایڈ سوسائٹی کے تعاون سے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقدمات اور صنفی بنیاد پر تشدد پر عدالتی ردعمل‘ کے موضوع پر منعقدہ قومی کانفرنس سے خطاب کیا۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ 1979 میں ایک فوجی آمر نے ملک کے مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانے کا فیصلہ کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس عرصے کے دوران 4 حدود قوانین نافذ کیے گئے جن میں زنا (نفاذ حدود) آرڈیننس 1979 اور قذف (نفاذ حدود) آرڈیننس 1979 شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: گھریلو تشدد کے بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کی سفارش

انہوں نے واضح کیا کہ آئین کا آرٹیکل 230 اسلامی کونسل کی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتا ہے، یہ شق کونسل کو اختیار دیتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو سفارشات پیش کرے کہ وہ ملک کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں اسلام کے اصولوں اور تصورات کے مطابق ترتیب دینے اور اقدامات اٹھانے کی ترغیب دیں۔

انہوں نے کہا کہ تاہم کونسل کے پاس قوانین بنانے کا کوئی اختیار نہ ہونے کے باوجود اس نے ڈکٹیٹر کی ہدایت پر حدود قوانین متعارف کرانے کی تجویز دی اور اس وقت کی کابینہ کے ایک پسندیدہ وزیر قانون نے انہیں آرڈیننس کی شکل میں ڈھالنے میں مدد کی۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے یاددہانی کروائی کہ اگرچہ حدود کے 2 قوانین اور قصاص اور دیت کے قوانین انگریزی میں لکھے گئے تھے لیکن جرائم کے نام اردو یا انگریزی کے بجائے عربی سے لیے گئے، انہوں نے مزید کہا کہ کوئی پولیس افسر، وکیل یا کوئی جج عربی میں ان جرائم کے معنی نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ زبان نہ سیکھے۔

انہوں نے کہا کہ ان عربی اصطلاحات کو قوانین میں انگریزی میں اسی طرح لکھ دیا گیا اور ڈکٹیٹر کے اس اقدام سے پاکستان دنیا میں جگ ہنسائی کا نشانہ بنا، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ عربی سمجھنے والوں نے عصمت دری کے لیے عربی کے موزوں ترین لفظ اغتساب کے بجائے 'زنا بالجبر' کی اصطلاح استعمال کرنے پر قانون سازوں کا مذاق اڑایا۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے کے لیے قانون منظور

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم ’زنا بالجبر‘ کا انگریزی میں ترجمہ کریں تو یہ جبر کے ساتھ زنا بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں انصاف کے عمل میں سنگین خرابیاں پیدا ہوئیں کیونکہ اگر زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون حاملہ ہو جاتی اور وہ یہ ثابت نہ کرپاتی کہ اس کے ساتھ عصمت دری کی گئی یا زنا بالجبر تو اسے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح عصمت دری یا قذف کے جرم میں خواتین کے خلاف انگلی نہ اٹھانے یا ان کے برابر الزام نہ لگانے کے مقدس ترین اسلامی احکامات بے معنی رہ گئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عورت کو اس کے کنوارے پن سے محروم کرنے کے جرم کو چھوٹے جرم کے طور پر پیش کیا گیا یا بہت سنگین جرم نہیں سمجھا گیا جسے اسلام میں سب سے بڑا جرم تسلیم کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) سے سیکشن 375 اور 376 (ریپ کے جرم اور اس کی سزا سے متعلق) کو حذف کرنے کی غلطی کو درست کرنے میں 27 سال لگے، جنہیں تحفظ خواتین ایکٹ 2006 کے ذریعے تعزیرات پاکستان میں دوبارہ شامل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں خواتین پر تشدد سے متعلق بل منظور

سپریم کورٹ کے جج نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس وقت غصہ یا افسوس ہوتا ہے جب مذہب اسلام کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مذہب میں خواتین کا کمتر مقام ہے، یہ قرآن پاک کے احکامات کے بھی خلاف ہے۔

قبل ازیں جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی کی شکایات کے اندراج کے لیے علیحدہ نظام کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

تبصرے (0) بند ہیں