گھریلو تشدد کے بل کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کی سفارش

اپ ڈیٹ 06 جولائ 2021
گھریلو تشدد بل 2021 کو ابتدائی طور پر 19 اپریل 2021 کو انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ - فائل فوٹو:اے پی
گھریلو تشدد بل 2021 کو ابتدائی طور پر 19 اپریل 2021 کو انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ - فائل فوٹو:اے پی

وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) بل 2021 پر اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کی طرف سے نظرثانی کی درخواست کی ہے جو ایک آئینی ادارہ ہے اور قانون سازوں کو تجویز دیتا ہے کہ آیا کوئی قانون اسلام کے احکامات کے منافی تو نہیں۔

5 جولائی 2021 کے خط میں بابر اعوان نے نشاندہی کی کہ ابتدائی طور پر رواں سال اپریل میں قومی اسمبلی (این اے) کے ذریعے منظور کردہ بل کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں بھیج دیا گیا تھا جس کے بعد سینیٹ نے مجوزہ قانون میں ترامیم کی تجویز پیش کیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ ’بل کی مختلف تعریفوں اور دیگر مواد کے بارے میں خدشات اٹھائے گئے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے کے لیے قانون منظور

اس میں مزید کہا گیا کہ ’سب سے اہم بات جس پر روشنی ڈالی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس بل کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 31 میں ریاست کی ذمہ داری میں شامل اسلامی (احکامات) اور طرز زندگی کی خلاف ورزی ہے‘۔

آئین کے آرٹیکل 230 (ون) (بی) کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’اسلامی کونسل (سی آئی آئی) کو کسی بھی سوال پر کسی ایوان، صوبائی اسمبلی، صدر مملکت یا گورنر کو تجویز دینے کا اختیار دیا گیا ہے کہ آیا مجوزہ قانون اسلام کے (احکامات) کے خلاف تو نہیں۔

خط میں انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 230 (ون) (اے) کے تحت ادارہ اسلام کے اصولوں کے مطابق انفرادی اور اجتماعی طور پر پاکستان میں مسلمانوں کو اپنی زندگی گزارنے کی ترغیب دینے کے طریقوں اور ذرائع کے بارے میں پارلیمنٹ کو سفارشات دے سکتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ ان بنیادوں پر یہ تجویز دی جاتی ہے کہ اس بل کو سی آئی آئی کے پاس بھیج دیا جائے۔

بل کی منظوری

گھریلو تشدد (روک تھام اور تحفظ) بل 2021 کو ابتدائی طور پر 19 اپریل 2021 کو انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا اور اسی دن اسے منظور کرلیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں خواتین پر تشدد سے متعلق بل منظور

شیریں مزاری نے کہا تھا کہ اس ایکٹ کے ذریعے اسلام آباد کے لیے ایک قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک کی تجویز پیش کی گئی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کو قانونی تحفظ اور ریلیف فراہم کیا جائے اور اس جرم کے ملزم کو سزا دی جائے۔

اس کے بعد بل کو سینیٹ میں منظوری کے لیے بھیجا گیا جہاں اپوزیشن نے مجوزہ قانون کی فوری منظوری کو روکنے کے لیے حکومت کو ایک ووٹ سے شکست دے دی تھی اور زور دے کر کہا تھا کہ اس بل کو مزید غور کے لیے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا جائے۔

اس وقت سینیٹ میں اپوزیشن بینچز سے پیپلز پارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ جب یہ بل ایک اہم قانون سازی ہے جسے قومی اسمبلی سے منظور ہونے میں مہینوں لگے تھے، اسے قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد اس معاملے پر فیصلہ کرنے کے لیے ووٹ تجویز کیا گیا اور جب اپوزیشن نے حکومت کو 34 کے مقابلے میں 35 ووٹ سے شکست دے دی تھی جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے اس معاملے پر اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ

سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بعدازاں یہ رپورٹ 18 جون کو پیش کی جس میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ اس بل کا مقصد ’اسلام آباد میں گھریلو تشدد کے خلاف خواتین، بچوں، بزرگوں اور دیگر کمزور افراد کے تحفظ، امداد اور بحالی کے لیے ایک مؤثر نظام قائم کرنا ہے‘۔

رپورٹ کے مطابق یہ قانون عدالتوں کو اختیار دے گا کہ وہ عبوری احکامات، تحفظ کی تحویل اور رہائش کے احکامات دے اور مدعا علیہان کے خرچ پر متاثرین کو مالی امداد فراہم کرے اور متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ایک تحفظ کمیٹی تشکیل دے جس میں وہ ان کی عدالتوں میں درخواستوں پر کارروائی کرے۔

مزید پڑھیں: ایران: حکومت نے خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے بل کی منظوری دے دی

تاہم رپورٹ میں مسودے میں بھی متعدد ترامیم کی تجویز پیش کی گئی تھی جس کے بعد بل دوبارہ قومی اسمبلی کو بھیج دیا گیا تھا۔

گھریلو تشدد سے متعلق سی آئی آئی کا اس سے قبل کا فیصلہ

2016 میں سی آئی آئی نے ایک بل تجویز کیا تھا جس کے تحت شوہر کو ’ضرورت پڑنے پر‘ اپنی بیوی کو ’ہلکے سے‘ مارنے کی اجازت دی گئی تھی اور اسکولوں، پسپتالوں اور دفاتر میں صنفی امتزاج پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس تجویز پر انسانی حقوق کے رضاکاروں کی جانب سے سخت تنقید کی گئی تھی۔

قائداعظم یونیورسٹی کی انسانی حقوق کی سرگرم رضاکار فرزانہ باری نے مجوزہ بل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی طرح شوہر کو اپنی بیوی کو مارنے کی اجازت دینا پاکستان کے آئین اور بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے خلاف ہے جن پر پاکستان نے دستخط کیے ہیں اور ان کا پابند ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں