عمر سرفراز چیمہ اب بھی گورنر پنجاب ہیں، نئے تقرر کا جواز نہیں، صدر علوی

21 مئ 2022
نئے گورنر کے تقرر کے لیے لکھے گئے خط کے جواب میں آج صدر نے اپنے مؤقف کو دہرایا—ڈان نیوز/اے ایف پی
نئے گورنر کے تقرر کے لیے لکھے گئے خط کے جواب میں آج صدر نے اپنے مؤقف کو دہرایا—ڈان نیوز/اے ایف پی

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کو جوابی خط میں گورنر پنجاب کے تقرر کے بارے میں اپنے مشورے پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا ہے۔

صدر سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر عارف علوی نے وزیر اعظم کو اس سے قبل 9 مئی 2022 کو ہونے والی ایک گفتگو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے عمر چیمہ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے وزیر اعظم کے مشورے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ آرٹیکل 101 (2) کے تحت گورنر، صدر کی خوشنودی تک عہدے پر فائز رہے گا, تاہم اسی روز کیبنٹ ڈویژن کے نوٹیفکیشن کے ساتھ انہیں برطرف کردیا گیا تھا۔

نئے گورنر کے تقرر کے لیے لکھے گئے خط کے جواب میں آج صدر نے اپنے اس مؤقف کو دہرایا اور کہا کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ موجودہ گورنر کو اس عہدے پر برقرار رہنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: سابق گورنر پنجاب کی برطرفی کےخلاف درخواست اعتراض کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر

صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عمر سرفراز چیمہ اب بھی گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز ہیں، نئی تقرری کا کوئی جواز نہیں ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 101 (2) کے تحت گورنر، صدر کی خوشنودی تک عہدے پر فائز رہے گا، موجودہ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ موجودہ گورنر اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔

صدر مملکت نے عمر سرفراز چیمہ کے 23 اپریل 2022 کے خط اور مورخہ 4 مئی 2022 کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیا جس میں اس بات کو اجاگر کیا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران پنجاب اسمبلی کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل ہوئیں، پنجاب اور اکثریت کو غیر قانونی طریقے سے جوڑ کر صوبے میں گورننس کے سنگین مسائل پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔

مزید پڑھیں: گورنر پنجاب کی برطرفی، عمران خان کا سپریم کورٹ سے آئین کی ’خلاف ورزی‘ پر نوٹس لینے کا مطالبہ

انہوں نے لکھا کہ غیر قانونی اقدامات سے پنجاب میں گورننس کے سنگین مسائل پیدا ہوئے، صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 17 مئی کے فیصلے سے گورنر کے اصولی مؤقف کی توثیق ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے 20 مئی کے فیصلے سے بھی گورنر پنجاب کا موقف مزید مستحکم ہوا، الیکشن کمیشن نے 25 اراکین صوبائی اسمبلی کے انحراف، وفاداریاں بدلنے کی تصدیق کی۔

مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر صدر نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 48 (1) کے مطابق نئے گورنر پنجاب کے تقرر کے حوالے سے اپنے مشورے پر نظر ثانی کریں۔

حمزہ شہباز کا انتخاب اور حلف برداری

عمر چیمہ کو ایک طویل عرصے سے ہونے والی کوششوں کے نتیجے میں گورنر پنجاب کے عہدے سے ہٹایا گیا جس کا مرکز انتخابات اور اس کے بعد حمزہ شہباز کی صوبے کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لینا تھا۔

شدید ہنگامہ آرائی اور افراتفری کے دوران حمزہ شہباز کو 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں صوبے کا چیف ایگزیکٹو منتخب کیا گیا تھا، تاہم ان کی حلف برداری میں ہفتوں تک تاخیر ہوئی کیونکہ گورنر پنجاب عمر چیمہ نے ان سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا اور ان کے انتخاب کے درست ہونے پر شکوک کا اظہار کیا۔

بعد ازاں حمزہ شہباز نے متعدد بار لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) سے رجوع کیا، انہوں نے سب سے پہلے 21 اپریل کو عدالت سے رجوع کیا اور اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی، اس کے بعد عدالت نے صدر عارف علوی کو گورنر کی غیر موجودگی میں حلف لینے کے لیے ایک نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: صدر عارف علوی نے گورنر پنجاب کی برطرفی کیلئے وزیراعظم کی ایڈوائس یکسر مسترد کردی

تاہم صدر کی جانب سے عدالتی حکم پر عمل کرنے میں تاخیر کے باعث حمزہ شہباز 25 اپریل کو دوبارہ عدالت سے رجوع کیا اور لاہور ہائی کورٹ سے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کو ان سے حلف لینے کی ہدایت دینے کی درخواست کی، جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے عمر چیمہ کو حمزہ شہباز کی حلف برداری کا عمل 28 اپریل تک مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے باوجود جب صدر اور گورنر عدالت کی ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہے تو حمزہ شہباز نے 29 اپریل کو تیسری بار لاہور ہائیکورٹ سے مداخلت کی درخواست کی تھی، عدالت نے اس کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کو حمزہ شہباز سے حلف لینے کی ہدایت کی تھی، جنہوں نے اگلے ہی روز حمزہ شہباز سے وزارت اعلیٰ کا حلف لے لیا۔

حمزہ شہباز کی حلف برداری سے چند گھنٹے قبل عمر چیمہ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے حمزہ شہباز کے پیشرو عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد کر دیا ہے جو کہ 28 مارچ کو صوبائی چیف ایگزیکٹو کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے تھے، ان کا مؤقف تھا کہ عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو بھیجا تھا لیکن اسے سابق گورنر نے منظور کرلیا تھا اس لیے یہ آئینی طور پر درست نہیں تھا، بعد ازاں عمر چیمہ نے حمزہ شہباز کو جعلی وزیر اعلی کہا اور ان کی حلف برداری کو غیر آئینی قرار دیا۔

مزید پڑھیں: صدرِ مملکت کی مزاحمت کے باوجود گورنر پنجاب عہدے سے برطرف

پی ٹی آئی نے حمزہ شہباز کے انتخاب کو لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کر رکھا ہے، مزید برآں آرٹیکل 63 اے پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور ای سی پی کی جانب سے پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے نے بھی حمزہ شہباز کے انتخاب کی حیثیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔

عمر چیمہ کی برطرفی کا پس منظر

وزیر اعظم شہباز شریف نے 17 اپریل کو عمر چیمہ کی برطرفی کی سمری صدر کو بھجوائی تھی جب کہ عمر چیمہ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیر اعظم کے پاس انہیں برطرف کرنے کا اختیار نہیں اور صرف صدر ہی ایسا کر سکتے ہیں۔

اس سمری میں وزیراعظم شہباز شریف نے گورنر پنجاب کے لیے پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود کا نام تجویز کیا تھا، تاہم جب صدر نے اس سمری کو بغیر کسی فیصلے کے 15 دن تک روکے رکھنے کے بعد واپس کر دیا تو وزیراعظم نے یکم مئی کو عمر چیمہ کی برطرفی اور ان کی جگہ بہاولپور سے مسلم لیگ (ن) کے وفادار بلیغ الرحمان کے تقرر کا مطالبہ کرتے ہوئے اس مشورے کی دوبارہ توثیق کی تھی۔

تاہم صدر نے دوسری سمری کو بھی مسترد کر دیا تھا اور وزیر اعظم کو آگاہ کیا تھا کہ گورنر کو ان کی منظوری کے بغیر نہیں ہٹایا جا سکتا اور وہ آئین کے آرٹیکل 101 کی شق 3 کے مطابق صدر کی خوشنودی کے مطابق اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: گورنر پنجاب کی برطرفی تک صوبائی کابینہ کی تشکیل روکنے کا فیصلہ

ایک پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے لکھا کہ موجودہ گورنر کو ہٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ ان پر نہ تو بدانتظامی کا کوئی الزام ہے اور نہ ہی کسی عدالت کی جانب سے سزا یا ان کی جانب سے آئین پاکستان کے خلاف کسی بھی فعل کا کوئی الزام ہے‘۔

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ آئین آرٹیکل 48(2) کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 101(3) کے لحاظ سے واضح ہے کہ صدر کسی بھی معاملے کے حوالے سے اپنی صوابدید کے مطابق کام کرے گا جس کے لیے وہ آئین کے مطابق بااختیار ہے۔

عمر چیمہ نے آرٹیکل 101(3) اور 48(2) پر بھی انحصار کیا جن کا انہوں نے متعدد ٹویٹس میں بھی یہ کہتے ہوئے حوالہ دیا کہ وزیراعظم کے مشورے کا خود کار طریقے سے عمل درآمد اس مدت کے بعد ہوتا ہے جس دوران صدر کو اس پر عمل کرنا ہوتا ہے لیکن گورنر کو ہٹانے کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں: گورنر پنجاب نے عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد کردیا

آئین کے مطابق صدر، وزیراعظم کی جانب سے بھیجی گئی سمری کو 14 دن تک بغیر کسی فیصلے کے روک سکتے ہیں، مدت ختم ہونے پر وزیر اعظم اس سلسلے میں اپنے مشورے کی دوبارہ توثیق کر سکتے ہیں اور صدر اپنا فیصلہ مزید 10 دن تک روک سکتے ہیں، اس مدت کے بعد گورنر کو ہٹا دیا جائے گا اور وزیر اعظم کو نیا گورنر مقرر کرنے کا اختیار ہے۔

معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار تھا تاہم اس دوران عمر چیمہ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، رات گئے کابینہ ڈویژن کے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ عمر چیمہ نے 17 اپریل کو صدر کو بھیجے گئے وزیر اعظم کے مشورے پر عہدہ چھوڑ دیا ہے جس کی یکم مئی کو توثیق کی گئی۔

تاہم عمر چیمہ نے نوٹیفکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا جب کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اسے پنجاب میں آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ پر زور دیا تھا کہ وہ اس کا نوٹس لے۔

یہ بھی پڑھیں: گورنر پنجاب نے نومنتخب وزیر اعلیٰ کی تقریب حلف برداری مؤخر کردی

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر آئین کے آرٹیکل 104 کے مطابق موجودہ گورنر کی تقرری تک گورنر کے فرائض سرانجام دیں گے۔

اس پیش رفت سے نہ صرف گورنر ہاؤس بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی صورتحال بدل سکتی تھی کیونکہ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو قائم مقام گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے اپنا عہدہ خالی کرنا پڑتا اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی جانب مائل ہیں۔

تاہم بعد میں ہونے والی پیش رفت میں پرویز الٰہی نے قائم مقام گورنر بننے سے انکار کر دیا، پرویز الٰہی کے ترجمان ڈاکٹر زین علی نے اس وقت بتایا تھا کہ گورنر ہاؤس کا عملہ سمری پر ان کے دستخط لینے پنجاب اسمبلی پہنچا تھا لیکن انہیں واپس بھیج دیا گیا۔

مزید پڑھیں: عمر سرفراز چیمہ نے گورنر پنجاب کا حلف اٹھا لیا

ترجمان نے بتایا تھا کہ جس طرح گورنر ہاؤس کے باہر پولیس کو تعینات کیا گیا ہے، ان حالات میں کون وہاں جانا چاہے گا۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر دونوں کو ایوان میں تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے، دریں اثنا عمر چیمہ نے اپنی بحالی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس نے درخواست کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں